لکھاری پاکستان کی روایتی صحافت کی محقق ہیں۔
لکھاری پاکستان کی روایتی صحافت کی محقق ہیں۔

گزشتہ ماہ اپنی فیملی سے ملاقات کے لیے میرا میکسیکو سٹی جانا ہوا لیکن ملاقات کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا میں مستقل طور پر وہاں منتقل ہوسکتی ہوں (لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا کیوں کہ زبان کے واضح فرق کی وجہ سے میں وہاں منتقل نہیں ہوسکتی)۔ میرے لیے پاکستان میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ میں ہر کچھ عرصے بعد کہیں چلی جاؤں۔ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی رہتی ہوں لیکن کراچی میرا گھر ہے۔

میں جانتی ہوں کہ میری مالی حالت اور میرے والد کی سپورٹ مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ میں بیرونِ ملک ملازمت کروں اور پھر کچھ عرصے بعد پاکستان واپس آجاؤں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میں ان لاتعداد لوگوں سے بہت مختلف ہوں جو ملک کی بے یقینی کے خوف سے پاکستان چھوڑنے کے لیے مجبور ہیں۔

لیکن اسی طرح کی بے یقینی مجھے میکسیکو میں بھی محسوس ہوئی۔

گزشتہ سال سرحدی پولیس نے امریکا میں داخلے کی کوشش پر کم از کم 7 لاکھ 44 ہزار میکسیکن شہریوں کو گرفتار کیا جوکہ 2008ء کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ میکسیکن شہری بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تشدد کے باعث ملک چھوڑ رہے ہیں۔

تارکین وطن میکسیکو کی معیشت کی بنیاد ہیں اور اکانومسٹ کے مطابق اپریل میں میکسیکو کو چین سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوئیں۔ البتہ بھارت کو سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوتی ہیں۔

لیکن بہت سے میکسیکن تارکینِ وطن کی آپ بیتی کو سن کر یہ لگتا ہے کہ ملک چھوڑنے کی کوشش میں وہ اپنی جانوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں بہت سے تارکینِ وطن امریکا جانے کی امید لے کر میکسیکو آتے ہیں۔ میکسیکو کی پناہ گزین ایجنسی COMAR کے مطابق میکسیکو آنے والے 10 ممالک کے مہاجرین کی فہرست میں افغان مہاجرین کا ساتواں نمبر ہے۔

2022ء میں انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کے مسنگ مائیگرینٹس پروجیکٹ میں میں یہ بات سامنے آئی کہ 2014ء سے اب تک تقریباً 50 ہزار لاپتا مہاجرین کو ’مردہ تصور‘ کرلیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ ’تقریباً 30 ہزار لوگوں کی قومیت معلوم نہیں ہوسکی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پُر خطر راستوں پر مارے جانے والے 60 فیصد سے زائد افراد کی شناخت نہیں ہوسکی‘۔

ذرا تصور کریں کہ یہ پیچھے رہ جانے والے خاندانوں کے لیے کتنی دردناک بات ہے۔ اپنے پیاروں کو اس امید کے ساتھ رخصت کرتے ہیں کہ وہ خیریت سے دوسرے ملک پہنچ جائیں گے اور وہ کبھی اس ملک واپس نہیں آئیں گے جہاں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ امیر اور مرد ہیں تو حالات کچھ مختلف ہوسکتے ہیں۔

مارچ میں پاکستان کی ہاکی اور فٹبال کھلاڑی 27 سالہ شاہدہ رضا بھی اٹلی کے ساحل کے قریب پیش آنے والے کشتی حادثے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے اہل خانہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے یہ خطرناک قدم صرف اس لیے اٹھایا کیونکہ وہ اپنے 3 سالہ بیٹے جس کا آدھا جسم مفلوج ہے، اس کا بہتر اور موثر علاج کروانا چاہتی تھیں۔

مجھے شاہدہ رضا کا خیال اس وقت آیا جب میں 24 سالہ سری لنکن ایتھلیٹ ساچینی پریرا کے حوالے سے پڑھ رہی تھی۔ ساچینی پریرا کو ’والٹنگ کوئن‘ بھی کہا جاتا ہے جو اب گزشتہ سال جولائی سے دبئی میں ملازمہ کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ حال ہی میں ’دی نیشنل‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی مفلوج والدہ کی دیکھ بھال اور ان کے علاج کے لیے انہوں نے ایتھلیٹ بننے کے اپنے خواب سے وقفہ لیا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا بڑا حصہ اپنی والدہ کے علاج کے لیے بھیج دیتی ہیں لیکن وہ ایتھلیٹ بننے کے خواب سے دستبردار نہیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں پول والٹ میں انٹرنیشنل طمغہ جیتنے والی سری لنکا کی پہلی خاتون بننا چاہتی ہوں‘۔

ان کے حالات کے حوالے سے سُن کر سری لنکن شہری کافی اداس ہوئے اور انہوں نے حکام کو قصوروار ٹھہرایا جنہوں نے ملکی ٹیلنٹ کی مدد نہیں کی۔ سری لنکن قونصل جنرل نے اس حوالے سے دی نیشنل کو موقف پیش کیا کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں انہیں کھیلوں کے حوالے سے کوئی معتبر ملازمت فراہم کی جاسکے۔

میں حیران ہوئی کہ کیسے ان دونوں ممالک کی ایتھلیٹس نے حالات سے مجبور ہوکر ملک چھوڑا تاکہ وہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرسکیں جبکہ اس سے بھی زیادہ حیران کُن یہ تھا کہ ان دونوں ہی خواتین میں یہ بات مشترک تھی کہ ایک کی والدہ اور ایک کے بیٹے کا آدھا جسم مفلوج تھا۔

دی نیشنل کے مطابق ساچینی پریرا کی والدہ اب سہارے کی مدد سے چل سکتی ہیں۔ لیکن مجھے شاہدہ رضا کے بیٹے کے حوالے سے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ شاید ہماری خبروں یا سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ مہم کی نوعیت ہی یہی ہے کہ سانحات کو بہت جلد بھلا دیا جاتا ہے کیونکہ نئے سانحات کے لیے جگہ درکار ہوتی ہے۔

عالمی بینک کے مطابق 2022ء میں سری لنکا میں 9 لاکھ پاسپورٹس جاری کیے گئے جوکہ کسی بھی سال جاری ہونے والے پاسپورٹس کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق گزشتہ سال کم سے کم 3 لاکھ سری لنکن شہریوں نے اپنا ملک چھوڑا جبکہ اس سال کے شروع کے 3 ماہ میں 73 ہزار شہریوں نے ملک سے ہجرت کی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد میں بھی ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے‘۔

مجھے یقین ہے کہ آپ نے پاکستانی شہریوں کے ملک چھوڑنے کے حوالے سے سن رکھا ہوگا۔۔۔ پڑھائی کی غرض سے بیرونِ ملک جانا، کینیڈا یا جہاں بھی دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ ہمیں لے جائے وہاں منتقل ہونا، خلیجی ممالک میں نوکری کرنا یا پھر پرتگال میں شہریت حاصل کرنے کے لیے زمینیں خریدنا اور وغیرہ وغیرہ۔ یا پھر غیر قانونی راستہ اختیار کرنا۔

میں سوچتی ہوں کہ کیا ہمیں پاکستان چھوڑ کر جانے والے شہریوں کے مکمل اعداد و شمار ملیں گے یا نہیں۔ اگرچہ ہمیں ان لوگوں کے حوالے سے مکمل تفصیلات نہیں مل پائیں گی جوکہ اپنی زندگی کی ڈور ان ایجنٹس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں جوکہ انہیں محفوظ راستے سے بیرونِ ملک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ صحافی وقاص احمد بتاتے ہیں کہ سال 2022ء میں 7 لاکھ 65 ہزار لوگوں نے ملک چھوڑا جوکہ 2021ء کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تعداد تھی۔

میں ان لوگوں کو قصوروار نہیں ٹھہرا رہی۔ سب جانتے ہیں کہ شہریوں کے ملک چھوڑنے کو کیسے روکا جاسکتا ہے لیکن کوئی بھی وہ اقدامات کرنے کو تیار نہیں جوکہ درکار ہیں۔

شاید اس حوالے سے وزیراعظم کوئی انکوائری کمیٹی بٹھائیں۔ سیاست دان اور ان کے سرپرست اس وقت ایک شخص کو انتخابات کی دوڑ سے دور رکھنے کے لیے اقدامات میں مصروف ہیں اور جس وقت تک وہ کامیاب ہوں گے، مجھے خدشہ ہے کہ شاید ہی کوئی ووٹ ڈالنے کے لیے پاکستان میں موجود ہو۔


یہ مضمون 31 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں