وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ کل ریلوے کا بہت خوفناک حادثہ ہوا جس میں 30 قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں، یہ ہمارے کم وسائل کا شاخسانہ ہے، ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

لاہور میں لیپ ٹاپ تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے، ہم بحرانی دور سے گزر رہے ہیں، یہ بننے اور ٹوٹنے کا دور ہے، خدا نہ کرے کہ ہم پھر ٹوٹ جائیں لیکن ہم نے دوبارہ ٹوٹنا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم 24 کروڑ ہوگئے، 2018 میں ہم 20 کروڑ تھے، 6 سال میں ہم 4 کروڑ بڑھ گئے، ہمارے بے پناہ مسائل ہیں، تمام کوشش کے باوجود پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کر سکے، ہماری بستیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، کل اقتدار میں آنے والے طالبان نے بھی تیزی سے ترقی کرنا شروع کردی ہے، اسی طرح ایتھوپیا جس کا نام غربت و افلاس کے لیے جانا جاتا تھا، انہوں نے بھی گزشتہ 25 ماہ میں اپنے ملک کا نقشہ بدل دیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت تو بہت آگے نکل گیا، بنگلہ دیش کا نام لیتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے، 1971 میں ہم سے الگ ہوئے اور آج کہاں سے کہاں جاپہنچے، ہماری آپس کی لڑائی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، انتقال اقتدار کی لڑائی، بار بار لگنے والے کبھی اعلانیہ اور کبھی نقاب پوش مارشل لاز نے ملک کو نقصان پہنچایا۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ ان مارشل لاز کے نتیجے میں آنے والی سیاسی قیادت جسے نظام سمجھنے میں دس، بیس سال لگ جاتے ہیں اور وقت ضائع ہوجاتا ہے، یہی سچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود امید کے پہلو بھی موجود ہیں، پاکستانیو نے بہت کچھ کھویا تو بہت پایا بھی ہے، پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے، بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، اگر ہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو وہ صرف باہمی اتحاد کی ہے، سیاسی استحکام نہیں ہے، سیاسی استحکام کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، ہمارے اختلاف رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے سیاست میں دہائیاں بیت گئی ہیں، مجھے یوں لگتا ہے کہ چند سال کے بعد ہم سیاسی استحکام کی جانب جائیں گے، کیونکہ لڑتے لڑتے سب تھک جائیں گے، کچھ تھک چکے، جو رہ گئے وہ بھی تھک جائیں گے، پھر سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔

سعد رفیق نے کہا کہ جب تک سب سیاستدان اور ادارے مل کر نہیں بیٹھیں گے اور مسائل کا حل نہیں نکالیں گے، ہم دائرے کا سفر کرتے رہیں گے، دائرے کا سفر ختم ہونا چاہیے، ملک کو آگے لے کر جانا چاہیے، پاکستانیو کا مقدر بھوک، غربت اور ناانصافی نہیں ہے۔

انہوں کہا کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز، فیصلہ ساز اور حکمران طبقات قوم کو انصاف نہیں دے سکے، مختلف مواقع پر انصاف کے نام پر یا تو دھوکا دیا گیا یا انصاف دیا ہی نہیں گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ بغیر تیاری کے حکومت میں آجاتے ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ادارے چلانے کیسے ہیں، انہیں کیسے آگے لے کر جانا ہے، قوم کو چاہیے کہ جب بھی فیصلہ کرے جذبات میں آکر نہیں، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے، یقین ہے کہ ملک آگے جائےگا، درپیش مشکلات میں سے نکلیں گے۔

’اپنے سے چھوٹے ممالک سے پیسے مانگنے پڑتے ہیں تو دل کرتا ہے زمین میں چلے جائیں‘

وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ہم دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھے، آئی ایم ایف پروگرام خوشی کی نہیں، مجبوری کی بات ہے، وقت آنا چاہیے کہ ہمیں ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

انہوں نے کہا کہ بطور وزیر ریلوے اور ایوی ایشن دونوں میری ذمہ داریاں ہیں، بطور وزیر ہوا بازی میں نے گزشتہ 15 ماہ کے دوران جو کچھ دیکھا، ان میں سے کچھ چیزیں ناقابل بیان ہیں، جب پیسے مانگنے کے لیے اپنے سے چھوٹے ملکوں میں جانا پڑتا ہے، ان کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے تو دل کرتا ہے کہ زمین پھٹ جائے، ہم اس میں چلے جائیں اور پیسے نہ مانگنے پڑیں لیکن ہم مانگنے جاتے ہیں، یہ ہمارے حالات ہیں، پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاسپورٹ کی عزت نہیں ہے، جب ہم پیسے اور خیرات مانگیں گے تو کون ہماری عزت کرے گا، یہ ہماری قومی زندگی کا تضاد ہے جسے دور کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تضادات کو دور کرنا پہلے سیاستدانوں اور پھر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے، اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شعور دیں کہ جہاں رہیں میرٹ پر کام کریں، خرابی کا سامنا کریں، ڈٹ جائیں، کوئی نقصان نہیں ہوتا، ڈٹے رہیں تو وقتی قیمت ادا کرتے ہیں لیکن مشکل سے نکل آتے ہیں، مشکل کے بعد آسانی ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کل ریلوے کا ایک بہت خوفناک حادثہ ہوا ہے جس میں 30 قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں، یہ ہمارے کم وسائل کا شاخسانہ ہے، ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں لیکن میری کچھ ذمہ داریاں ہیں، دو دن بعد نگران حکومت آجائے گی، ہم تحقیقات کر رہے ہیں، جو ذمے دار ہوگا، اس کو سزا ملے گی لیکن اصل ذمہ دار یہ ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ہم چیزوں کو چلا نہیں پا رہے، ہمارے مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چینی حکام کے ساتھ ایم ایل ون جو لاہور سے کراچی تک ہوگی، اس کا فیصلہ ہوگیا ہے، فیصلہ تو ہم 2018 میں کر گئے تھے، اب دوبارہ ہماری بات ہوئی ہے، اکتوبر میں بیجنگ میں چینی صدر کی موجودگی میں نگران حکومت کے دور میں اس معاہدے پر دستخظ ہوں گے، اگر تسلسل قائم رہا تو قوم کو 5 سے 6 سال میں ایسی ریلوے دیکھنے کو ملے جو ہم ملک سے باہر دیکھتے ہیں۔

’ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں پی آئی اے نے ایسے نہیں چلنا‘

سعد رفیق نے کہا کہ پی آئی اے 14 ماہ سے میری ذمہ داری ہے، میں نے ایمانداری سے بڑا زور لگایا، پی آئی اے والوں نے بھی محنت کی کہ کسی طرح یہ چل جائے لیکن اس نے نہیں چلنا، یہ بات میں نے ڈنکے کی چوٹ پر سب کو بتادی ہے کہ اس کو بدلنا پڑے گا، اسی طرح سے بدلنا پڑے گا جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے اس کو بدلا۔

وزیر ہوا بازی نے کہہ آپ کی ایئر لائن دنیا کی بڑی ایئرلائنز میں شامل تھی، آج اس کی حالت قابل افسوس ہوگئی ہے، اس میں سیاسی بھرتیاں کی گئیں، مختلف ادوار میں میرٹ پر کام نہیں کیا گیا، اس کا حل یہ ہے جو ایئر انڈیا نے کیا، ساؤتھ افریقن ایئر لائن نے کیا، ہم بھی اس پر بنیاد رکھ دیں، نجی شعبے کو ساتھ لانا پڑے گا، اس کی سرمایہ کاری لانی پڑے گی، تاکہ نئے جہاز لائے جائیں، ہمارے پاس پوری دنیا کے روٹ موجود ہیں لیکن جہاں نہیں ہیں، بہترین پروفیشنلز موجود ہیں لیکن جہاز کے بغیر ایئر لائن کیسے چلے گی، اس کے لیے سرمایہ کاری پاکستان کے پاس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے، پوری دنیا میں سرکار کا کام ایئر پورٹ بنانا ہے، چلانا نہیں ہے، اب تو ایئرپورٹ نجی سطح پر بنائے جا رہے ہیں، سیالکوٹ کا ایئر پورٹ نجی شعبے نے بنایا، سب سے پہلے اسلام آباد کا ایئرپورٹ 15 سال کے لیے آؤٹ سورس کریں گے، دنیا کی بہترین کمپنیوں کا مقابلہ ہوگا، کل بڈنگ ہو رہی ہے، جو بہترین ہوگا، اسے ٹھیکا ملے گا، ہم نے بنیاد رکھ دی، کل اس کا اشتہار آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت خالی نظر آنے والا اسلام آباد کا ایئر پورٹ بھرا ہوا نظر آئے گا، اس کے اندر دنیا بھر کے برینڈز ہوں گے، اس کی موجودہ گنجائش 90 لاکھ سے بڑ کر ایک کروڑ 30 لاکھ تک چلی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے، ہر طرف مایوسی کی بات نہیں ہے، بہت سے کام ہو رہے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو اس کا معلوم نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں