فلپائن کے جہازوں پر واٹر کینن سے حملہ کرنے کے معاملے پر چینی سفیر طلب

اپ ڈیٹ 07 اگست 2023
چینی کوسٹ گارڈ نے فلپائن کے سیکنڈ تھامس شول کو سپلائی کے مشن کے خلاف واٹر کینن کا استعمال کیا — تصویر: اے ایف پی
چینی کوسٹ گارڈ نے فلپائن کے سیکنڈ تھامس شول کو سپلائی کے مشن کے خلاف واٹر کینن کا استعمال کیا — تصویر: اے ایف پی

فلپائن کے صدر فرڈینینڈ مارکوس نے کہا ہے کہ متنازع جنوبی بحیرہ چین میں فلپائن کے بحری جہازوں کو چینی کوسٹ گارڈ کی جانب سے روکے جانے اور ان پر واٹر کینن سے حملہ کرنے پر فلپائن نے چین کے سفیر کو طلب کیا۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ واقعہ ہفتے کے روز اس وقت پیش آیا جب فلپائن کے کوسٹ گارڈ، اسپراٹلی جزائر کے سیکنڈ تھامس شول میں تعینات فلپائن کے فوجی اہلکاروں کے لیے خوراک، پانی، ایندھن اور دیگر سامان لے جانے والی چارٹر کشتیوں کو لے جارہے تھے۔

بیجنگ تقریباً تمام جنوبی بحیرہ چین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جس سے سالانہ کھربوں ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے اور اس نے 2016 کے بین الاقوامی عدالت کے اس فیصلے کو نظر انداز کردیا جس میں چین کے دعوے کو قانونی طور پر بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

فلپائن کی فوج اور ساحلی محافظوں نے چینی کوسٹ گارڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے سپلائی مشن پر مامور چارٹر کشتیوں میں سے ایک کو شوآل تک پہنچنے سے روک کر اور اس پر واٹر کینن سے حملہ کرکے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایک اور چارٹر کشتی سپلائی کا سامان ان لوڈ کرنے میں کامیاب رہی۔

اس سے متعلق چین نے مؤقف اپنایا کہ اس نے اپنی سمندری حدود میں ’غیرقانونی‘ طور پر داخل ہونے والی فلپائن کی کشتیوں کے خلاف ’ضروری اقدامات‘ کیے۔

فلپائن کے صدر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمارے سیکریٹری برائے خارجہ امور نے آج سفیر ہوانگ کو طلب کیا اور انہیں زبانی ایک نوٹ دیا جس میں تصاویر، ویڈیو بھی شامل ہیں کہ کیا ہوا اور اس حوالے سے ہم ان کے جواب کے منتظر ہیں۔

فرڈینینڈ مارکوس نے کہا کہ ’یقیناً چین کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ حصہ ہمارا ہے لہٰذا ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، جبکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہم اس کے مالک ہیں اس لیے ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، تو یہ ایک گرے ایریا بن جاتا ہے جس پر ہم بحث کر رہے ہیں‘۔

امریکا کے محکمہ خارجہ نے اتوار کو چین کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں کوسٹ گارڈ اور’میری ٹائم ملیشیا’ نے انجام دیں اور ان سے علاقائی امن اور استحکام کو براہ راست خطرہ ہے۔

برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین نے بھی چین کی اس کارروائی پر تنقید کی ہے۔

سیکنڈ تھامس شول فلپائن کے جزیرے پالوان سے تقریباً 200 کلومیٹر اور چین کے قریبی بڑے جزیرے ہینان سے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر ہے۔

فلپائن نے کہا کہ چین کے کوسٹ گارڈ اور بحریہ کے جہاز معمول کے مطابق فلپائن کے بحری جہازوں کو متنازع پانیوں میں گشت کرنے سے روکتے ہیں یا ان کا پیچھا کرتے ہیں۔

وزارت خارجہ نے کہا کہ فلپائن 2020ء سے بحیرہ جنوبی چین میں اپنی غیر قانونی سرگرمیوں پر 400 سے زائد بار سفارتی سطح پر احتجاج کرچکا ہے۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جوناتھن ملایا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’واضح کردوں کہ ہم سیکنڈ تھامس شول کو کبھی نہیں چھوڑیں گے، ہم سیکنڈ تھامس شول سے مخلص ہیں‘۔

ہفتے کا واقعہ نومبر 2021ء کے بعد پہلا موقع تھا جب چینی کوسٹ گارڈ نے فلپائن کے سیکنڈ تھامس شول کو سپلائی مشن کے خلاف واٹر کینن کا استعمال کیا۔

نیشنل ٹاسک فورس فار دی ویسٹ فلپائن سی، جس میں مختلف سرکاری اداروں کے نمائندے شامل ہیں، نے کہا کہ ’فلپائن چین کوسٹ گارڈ، پیپلز لبریشن آرمی نیوی اور چینی بحری افواج کے جہازوں کی طرف سے ان تازہ ترین واقعے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے‘۔

فلپائن نے زور دیا کہ سیکنڈ تھامس شول اس کے اقتصادی زون کا حصہ ہے۔

فلپائن اور چین کے درمیان جنوبی بحیرہ چین پر بحری تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں