پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں بالکل اندھیرے میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے اٹک جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ ’عمران خان کو سی کلاس میں بڑی تکلیف میں رکھا گیا ہے، لیکن ان کا حوصلہ بلند تھا، وہ ہنس رہے تھے۔

وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ میں نے عمران خان کو کارکنان کی گرفتاریوں کے بارے میں بتایا جس پر انہوں نے کہا کہ دیکھیں یہ کس حد تک چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان کو بتایا کہ پی ٹی آئی پشاور سے جیت گئی ہے جس پر وہ خوش ہوئے اور کہا کہ قوم نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ کس طرح کھڑی ہے۔

نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ ہم نے عمران خان کو بتایا کہ پرسوں تک ہماری کوشش ہوگی کہ ان کی ضمانت ہو جائے، آج انہوں نے جان بوجھ کر تاخیر کی ہے لیکن جیسے ہی درخواست پر سماعت ہوگی تو انہیں رہا کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو بالکل ایک اندھیرے کمرے میں رکھا گیا ہے، نہ کوئی ٹی وی کی سہولت ہے، نہ کوئی اخبار دیا جارہا ہے اور نہ ہی کسی سے میرا رابطہ کرایا جارہا ہے، جیسے میں کوئی ملک کا سب سے بڑا دہشت گرد ہوں اور ملک کے خلاف کوئی ایسی چیز کی ہے جس طرح کا رویہ رکھا جا رہا ہے۔

قبل ازیں نعیم حیدر پنجوتھا دوپہر میں اٹک جیل پہنچے جہاں انہیں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔

وکیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا تھا کہ عمران خان سے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک ملاقات ہوئی، کچھ دیر بعد پریس کانفرنس میں سب کچھ بتاؤں گا۔

اس سے قبل نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا تھا کہ عمران خان سے ملاقات کے لیے جارہے ہیں، ان سے پاور آف آٹارنی دستخط کروائیں گے، جس کے بعد توشہ خانہ فیصلے اور گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کریں گے۔

پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں وکیل نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ عمران خان کو اٹک جیل میں ’سی کلاس جیل کی سہولیات‘ فراہم کی گئی ہیں۔

جیل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ اپنی گفتگو کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے صبح 8 بجے یا 9 بجے پاور آف اٹارنی پر دستخط کروانے کو کہا تھا لیکن ان کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔

وکیل نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عمران خان کی جانب سے مطلوبہ دستاویزات پر دستخط ہوتے ہی وہ توشہ خانہ فیصلے کے خلاف آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔

نعیم حیدر پنجوتھا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کا ’منصفانہ ٹرائل‘ نہیں کیا گیا، انہوں نے امید ظاہر کی کہ فیصلے کو چیلنج کرنے کے بعد ان کی 3 سال کی سزا کو معطل کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان سمیت دیگر وکلا کو سربراہ پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں اے کلاس دینے کی درخواست

توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو جیل میں اے کلاس سہولیات دینے کے لیے اُن کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو بی کلاس سہولیات فراہم کی گئی ہیں، تاہم ان کے وکلا اور جماعت نے گزشتہ روز دعویٰ کیا کہ جیل انتظامیہ کی جانب سے انہیں عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

قانونی ٹیم نے کہا تھا کہ وہ عمران خان سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں کپڑے، کھانا، دیگر ضروری اشیا فراہم اور ان کے دستخط حاصل کر سکیں، حکام نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی اور وکلا کو پاور آف اٹارنی حاصل کرنے کے لیے پیر کو (آج) دوبارہ آنے کو کہا تھا۔

عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل ایک وکیل نے کہا کہ ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں مختلف درخواستیں دائر کرنے اور مختلف عدالتی احکامات کو چیلنج کرنے کے لیے پاور آف اٹارنی کے ساتھ ساتھ عمران خان کی دستخط شدہ دیگر دستاویزات کی بھی ضرورت ہے۔

ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن نے بتایا تھا کہ قانونی ٹیم کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جیل انتظامیہ نے ملاقات کی اجازت دینے سے یکسر انکار کردیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ اٹک جیل میں بی کلاس سہولیات کا فقدان ہے، تاہم محکمہ جیل خانہ جات نے ان کے اس دعوے کی تردید کی۔

آج عمران خان کے ترجمان برائے قانونی امور نعیم حیدر پنجوتھا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ عمران خان کی اٹک جیل میں نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور سابق وزیراعظم کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔

درخواست میں ریاست، اسلام آباد کے چیف کمشنر نورالامین مینگل اور اڈیالہ جیل اور اٹک جیل کے سپرنٹنڈنٹس کو کیس میں مدعا علیہ نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پاکستان پریزن رولز (پی پی آر) کے رول 243 (کلاسیفائنگ اتھارٹی) کے تحت ’بہتر کلاس/اے-کلاس‘ جیل کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

نعیم حیدر پنجوتھا نے یہ بھی استدعا کی کہ عمران خان کو ان کی قانونی ٹیم، خاندان کے افراد، ذاتی ڈاکٹر فیصل سلطان اور سیاسی معاونین سے باقاعدگی سے ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے، جن کی فہرستیں بھی عدالت میں جمع کروائی گئی ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو کس قانون کے تحت اٹک جیل میں نظر بند کیا گیا ہے جبکہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری کے تحت انہیں اڈیالہ جیل بھیجنا چاہیے تھا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو 9 بائی 11 فٹ کے سیل میں رکھا گیا ہے جہاں ایک گندہ باتھ روم ہے، یہ کمرہ ایک گندہ سیل تھا جو عام طور پر دہشت گردوں کے لیے مختص ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ جواب دہندگان عمران خان کے ساتھ ایک مجرم جیسا سلوک کر رہے ہیں اور انہیں ناقص وجوہات اور سیاسی حکومت کے دباؤ کے تحت ایک چھوٹے اور تنگ بیرک میں رکھا گیا ہے۔

پی پی آر کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں استدلال کیا گیا کہ سماجی اور سیاسی حیثیت، تعلیم اور ان کے بہتر طرز زندگی کے عادی ہونےکی وجہ سے عمران خان اے کلاس سہولیات کے حق دار ہیں۔

عمران خان کو ان کی قانونی ٹیم، ڈاکٹر، خاندان کے افراد اور سیاسی معاونین تک رسائی سے انکار کی نشاندہی کرتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر فیصل سلطان کی عمران خان تک رسائی ضروری ہے کیونکہ وہ پی ٹی آئی سربراہ کی مکمل طبی تاریخ (میڈیکل ہسٹری) سے واقف ہیں جن میں 2013 میں اسٹیج سے گرنے اور پچھلے سال وزیر آباد حملے کے زخم شامل ہیں۔

پی پی آر کے مطابق سزا یافتہ قیدیوں کو اعلیٰ، عام اور سیاسی طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے، اعلیٰ کلاس میں اے اور بی کلاس کے قیدی شامل ہیں، عام کلاس میں اعلیٰ کلاس کے علاوہ دیگر قیدی شامل ہوتے ہیں۔

زیرِ سماعت قیدیوں کی صرف 2 کلاسز ہیں، بہتر کلاس اور عام کلاس، بہتر کلاس میں وہ قیدی شامل ہیں جن کا مقدمہ زیرِ سماعت ہو اور جو سماجی حیثیت، تعلیم یا زندگی کی عادت کے لحاظ سے اعلیٰ طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جبکہ سزا یافتہ قیدیوں کے لیے اے اور بی کلاس ایک جیسی ہوتی ہیں، عام کلاس میں باقی سب شامل ہوں گے اور ان کی سہولیات سی کلاس جیسی ہوں گی۔

اعلیٰ کلاس کے قیدیوں کو کتابیں اور اخبارات، 21 انچ کا ٹیلی ویژن، ایک میز اور کرسی، ایک گدا، بستر، لباس اور خوراک فراہم کیے جاتے ہیں، اس سب کے لیے قیدی خود رقم ادا کرتے ہیں جبکہ حکومت صرف انہیں اعلیٰ حفاظتی وارڈ میں سیکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے جہاں انہیں دیگر قیدیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

جیل کے کمروں میں ایک چارپائی، ایک کرسی، ایک چائے کا برتن، اگر بجلی کی روشنی نہ ہو تو ایک لالٹین اور صفائی ستھرائی اور دھلائی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، اے کلاس کے قیدی سپرنٹنڈنٹ کی صوابدید پر اپنی ادا کردہ قیمت پر مناسب حدود میں دیگر اشیا کے ذریعے فرنیچر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر بات کرتے ہوئے نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ انہیں گزشتہ رات جیل سپرننٹنڈنٹ کا فون آیا جس نے انہیں کہا کہ وہ آج رات 12 بجے عمران خان کے دستخط شدہ پاور آف اٹارنی حاصل کرنے کے لیے آئیں۔

وکیل نے کہا کہ انہوں نے وقت پر اعتراض کیا اور دلیل دی کہ دستخط حاصل کرنے میں جیل حکام کی تاخیر سے توشہ خانہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے میں بھی تاخیر ہوگی، تاہم جیل سپرنٹنڈنٹ دن 12 بجے کے وقت پر اصرار کرتا رہا اور کہا کہ ’عمران خان دوپہر 12 بجے تک جاگ جائیں گے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں