افغان پالیسی پر اختلاف، قومی اسمبلی میں اتحادی جماعتوں کی ایک دوسرے پر تنقید

اپ ڈیٹ 09 اگست 2023
مولانا اسد محمود کے ان دعووں کا جواب دینے کے لیے محسن داوڑ ایوان میں موجود نہیں تھے—فائل فوٹو: قومی اسمبلی/انسٹاگرام
مولانا اسد محمود کے ان دعووں کا جواب دینے کے لیے محسن داوڑ ایوان میں موجود نہیں تھے—فائل فوٹو: قومی اسمبلی/انسٹاگرام

قومی اسمبلی کی مجوزہ تحلیل سے صرف ایک روز قبل افغان پالیسی کے معاملے پر حکمران اتحادیوں کے درمیان اختلافات سامنے آگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رہنما جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) مولانا اسد محمود نے شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جب محسن داوڑ نے پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا ذمہ دار افغانستان میں طالبان حکومت کو ٹھہرایا۔

گزشتہ روز اپنی تقریر میں رہنما جے یو آئی (ف) اسد محمود نے افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت کے لیے اپنی پارٹی کے عزم کا اعادہ کیا اور محسن داوڑ پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکا کے ’ماؤتھ پیس‘ بن چکے ہیں۔

انہوں نے خاص طور پر محسن داوڑ کے ان ریمارکس پر تنقید کی کہ ’جن لوگوں نے افغانستان میں طالبان کے قبضے کا جشن منایا تھا، ان کے ہاتھ دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والے معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘۔

مولانا اسد محمود نے کہا کہ جب امریکا کی حمایت یافتہ کٹھ پتلی کی افغانستان پر حکومت ہوتی ہے تو آپ اس کا جشن مناتے ہیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور جب اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے تو آپ کو دوسروں کے ہاتھوں میں خون نظر آنے لگتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کشمیری عوام کی حمایت کی طرح غیر ملکی افواج کے خلاف افغانوں کی جنگ کو ’جہاد‘ سمجھتے ہیں، ہم افغانستان میں امارت اسلامیہ کی حمایت اسی طرح کر رہے ہیں جیسے کشمیریوں کی کرتے ہیں۔

’دوہرا معیار قابل قبول نہیں‘

اسد محمود نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی تشکیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہے تھے تو آپ فوج کو آپریشن کرنے کی دعوت دے رہے تھے، جب آپ کی خواہش پوری ہوئی اور فوج نے آپریشن شروع کیا تو آپ نے ایک پشتون تنظیم بنالی اور فوج کو گالی دینا شروع کر دی، یہ دوہرا معیار ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے، ہم سیکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے یادہانی کروائی کہ قبائلی عمائدین کے ساتھ حالیہ ملاقات میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے واضح کیا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو صورت حال سے نمٹنے کے لیے ’مشترکہ حکمت عملی‘ اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان افغانستان میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔

مولانا اسد محمود کے ان دعووں کا جواب دینے کے لیے محسن داوڑ ایوان میں موجود نہیں تھے، اسپیکر اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اراکین اسمبلی سے کہا کہ وہ متنازع ایشوز پر بات نہ کریں اور اسمبلی کے خوشگوار اختتام کو یقینی بنائیں۔

دریں اثنا قومی اسمبلی نے آخری پرائیویٹ ممبر ڈے پر مزید 2 بل منظور کر لیے جن میں سے ایک اسلام آباد میں نجی یونیورسٹی کے قیام اور دوسرا ’اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف مینجمنٹ بل 2023‘ کے حوالے سے تھا۔

قبل ازیں اجلاس کے آغاز پر محسن داوڑ نے اپنی الوداعی تقریر میں پورے ملک بالخصوص خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور افغان پالیسی پر تنقید کی۔

باجوڑ میں جے یو آئی (ف) کے کنونشن پر 30 جولائی کو ہونے والے خودکش دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی نئی لہر 45 سال سے موجود ایک غلط افغان پالیسی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے میں پاکستان کے کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ دوحہ معاہدے کے بعد خطے میں ایک نئی جنگ شروع ہو گئی ہے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ افغانستان پر طالبان مسلط کیے گئے، پھر مذاکرات کی آڑ میں طالبان کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی، ہم نے بطور ریاست پورے کھیل کو آسان بنایا، پہلے ہم نے دوحہ معاہدے میں سہولت فراہم کی اور پھر افغانستان میں طالبان کے قبضے میں سہولت فراہم کی۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو حالیہ اجلاس میں بتایا گیا کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے افغانستان میں طالبان کے قبضے کا جشن منایا تھا وہ پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں، ان کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی طالبان کو مسلط کرنے کا منصوبہ ہے کیونکہ طالبان پہلے ہی شیڈو گورنر اور انٹیلی جنس چیف مقرر کر چکے ہیں۔

عجلت میں قانون سازی

علاوہ ازیں محسن داوڑ نے حکومت کو جلد بازی میں قانون سازی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور خبردار کیا کہ ترمیم شدہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ مستقبل میں کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے حکومت کی 5 سالہ مدت پوری ہونے سے 3 روز قبل اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام پر افسوس کا اظہار کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے ڈیجیٹل مردم شماری کی آخری لمحات میں منظوری کے بعد انتخابات میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔

’نئی میثاق جمہوریت‘

محسن داوڑ نے کہا کہ اگر ہم ڈرائیونگ سیٹ دوسروں کو دیں گے تو معاملات ہمارے ہاتھ میں نہیں رہیں گے اور فیصلے دوسرے کریں گے۔

انہوں نے سیاسی جماعتوں کو اس عمل میں شامل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ وہ ایک نئی میثاق جمہوریت پر تبادلہ خیال کریں۔

بعدازاں اسپیکر نے اجلاس بدھ (آج) کی دوپہر 2 بجے تک ملتوی کردیا، علاوہ ازیں آج شام پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

صحافیوں کا احتجاج

دریں اثنا پیمرا ترمیمی بل کو چند ٹی وی اینکرز کی جانب سے مخالفت کے بعد واپس لینے پر قومی اسمبلی کی کارروائی کور کرنے والے صحافیوں نے مسلسل دوسرے روز واک آؤٹ کیا۔

واضح رہے کہ یہ بل پہلے ہی قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے اور توقع ہے کہ آج (بدھ) کو سینیٹ میں اس بل پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں