عمران خان کے وکیل، جج سے منسوب فیس بک پوسٹس کی تحقیقات کے سلسلے میں طلب

اپ ڈیٹ 09 اگست 2023
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انکوائری اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے— فائل فوٹو: اایف آئی اے ویب سائٹ
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انکوائری اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے— فائل فوٹو: اایف آئی اے ویب سائٹ

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو سزا سنانے والے ٹرائل کورٹ کے جج کی مبینہ جعلی فیس بک پوسٹس سے متعلق انکوائری کے سلسلے میں طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے اس انکوائری کے سلسلے میں عمران خان کے خصوصی اٹارنی نعیم حیدر پنجھوتا سے بھی 8 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق خواجہ حارث کو 9 اگست کو دوپہر 2 بجے اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں سائبر کرائمز ونگ میں انکوائری کے سلسلے میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انکوائری اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے۔

عمران خان کی قانونی ٹیم کی جانب سے جج کے فیس بک اکاؤنٹ پر عمران خان مخالف کچھ مبینہ پوسٹس کی بنیاد پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) ہمایوں دلاور کی عدالت سے توشہ خانہ کیس کی منتقلی کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

مذکورہ سوشل میڈیا پوسٹس بعد میں جعلی ثابت ہوئی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے حوالے کیا تھا اور رپورٹ طلب کرلی تھی۔

ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں متنازع پوسٹس کو من گھڑت قرار دیا۔

4 اگست کو کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل نے عمران خان کے طرز عمل پر تنقید کی تھی اور دلیل دی تھی کہ یہ عدالت کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

تاہم اس کی تردید کرتے ہوئے خواجہ حارث نے دلیل دی کہ فیس بک پر جعلی پوسٹس کے معاملے پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی رپورٹ یکطرفہ تھی۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ ’ایف آئی اے، یو آر ایل/لنک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسکرین شاٹس کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکی اور اس قسم کی کوئی پوسٹ یا اسکرین شاٹ نہیں ملا‘۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ اس معاملے کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے اور ان تمام افراد کو شامل کرکے انکوائری کی جائے جنہوں نے پوسٹوں کی صداقت کی تصدیق کیے بغیر اسے اسلام آباد کی عدلیہ کے سینئر جوڈیشل افسر کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا۔

خاص طور پر جب ان کی جانب سے دوٹوک تردید کردی گئی تھی حوالہ شدہ پوسٹس ان کے اکاؤنٹ سے نہیں ہوئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں