قومی اسمبلی تحلیل، نگران وزیراعظم کا نام تاحال طے نہ ہو سکا

اپ ڈیٹ 10 اگست 2023
مدت ختم ہونے سے 3 روز قبل قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی — فوٹو: فیس بک / قومی اسمبلی
مدت ختم ہونے سے 3 روز قبل قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی — فوٹو: فیس بک / قومی اسمبلی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی مدت ختم ہونے سے 3 روز قبل تحلیل کردی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری گزشتہ روز صدر مملکت کو بھیجی تھی جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کردیے۔

جہاں تک صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا تعلق ہے تو سندھ اسمبلی کا سیشن جاری ہے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے گورنر ملک عبدالولی کاکڑ کو سمری بھیجنے کی خبروں کی تردید کردی ہے۔

عبدالقدوس بزنجو نے بتایا کہ ’مجھے بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے ایڈوائس بھیجنے کی جلدی نہیں ہے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر 12 اگست (ہفتہ) کو سمری پر دستخط کر سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں عبدالقدوس بزنجو نے یہ بھی واضح کیا کہ نگران وزیراعلیٰ کے لیے فی الحال کوئی نام فائنل نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب حکومت نگران وزیراعظم کا نام حتمی طور پر طے کرنے میں تاحال ناکام ہے، اس حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے درمیان متوقع ملاقات نہ ہوسکی جو کہ ایک آئینی تقاضا ہے۔

دونوں آج (جمعرات) کو ملاقات کریں گے، آئین کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کے پاس نگران وزیراعظم کا نام حتمی طور پر طے کرنے کے لیے 3 روز کا وقت ہے۔

حکمران جماعتیں نگران وزیراعظم کا نام ظاہر کرنے سے تاحال گریزاں ہیں جو عام انتخابات تک عبوری سیٹ اپ کی سربراہی کریں گے، خیال رہے کہ تازہ مردم شماری کو نوٹیفائی کرنے کے فیصلے کے بعد عام انتخابات مؤخر ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔

نگران وزیراعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا جائے گا، اگر کمیٹی کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تو الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کیے گئے مجوزہ ناموں کی فہرست میں سے نگران وزیراعظم کا انتخاب کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس 2 روز کا وقت ہوگا۔

ایک اور نام تجویز

دریں اثنا نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے امیدواروں کی فہرست میں ایک نئے نام ’جلیل عباس جیلانی‘ کا اضافہ ہوگیا ہے، کہا جارہا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے نگران وزیراعظم کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کو تجویز کردہ 3 نامزد امیدواروں میں سے ایک ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے تصدیق کی کہ ان کی پارٹی نے اس عہدے کے لیے جلیل عباس جیلانی کا نام تجویز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ کسی سیاستدان کو نگران وزیر اعظم بنایا جائے لیکن پارٹی کی یہ بھی خواہش ہے کہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط شخصیت کو عبوری سیٹ اپ کا سربراہ بنایا جائے۔

تاہم نگران وزیراعظم کے تقرر تک وزیراعظم شہباز شریف بطور وزیر اعظم فرائض سرانجام دیں گے، آئین کے آرٹیکل 94 کے مطابق وزیر اعظم کو صدر مملکت اس وقت تک عہدے پر فائز رہنے کو کہہ سکتے ہیں جب تک ان کہ جگہ نگران وزیر اعظم نہیں آجاتا۔

جلیل عباس جیلانی کا نام نگران وزیراعظم کے عہدہ کے لیے ’مضبوط امیدوار‘ کے طور پر ابھرنے سے قبل سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مضبوط امیدوار سمجھا جارہا تھا، اب سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سابق سیکریٹری خارجہ کا نگران وزیراعظم بننے کا زیادہ امکان ہے۔

دیگر امیدواروں میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی، عبداللہ حسین ہارون، پیر پگارا اور مخدوم محمود احمد شامل ہیں۔

رات گئے قومی اسمبلی کی تحلیل کے فوراً بعد اسلام آباد کے مختلف مقامات پر فوجی دستے دیکھے گئے، تاہم یہ واضح نہ ہو سکا کہ فوجیوں کی موجودگی سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے تھی یا اس کی وجہ کوئی وی آئی پی موومنٹ تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں