الیکشن کمیشن سے انتخابات کے بروقت انعقاد کا مطالبہ، قرارداد سینیٹ سے منظور

اپ ڈیٹ 09 اگست 2023
سینیٹر مشتاق احمد نے انتخابات کے بروقت انعقاد کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
سینیٹر مشتاق احمد نے انتخابات کے بروقت انعقاد کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

ایوان بالا سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کر لی جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ملک بھر میں آئین کے آرٹیکل 224 میں دیے گئے وقت کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

یہ قرارداد جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے پیش کی جس میں تمام ریاستی اداروں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئینی مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔

یہ قرارداد ایک ایسے موقع پر پیش کی جب حکومت اپنی آئینی مدت سے تین دن قبل آج تحلیل کردی جائے گی اور جس کی سمری آج وزیراعظم شہباز شریف صدر مملکت کو ارسال کردیں گے جس کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہو گا۔

تاہم اس آئینی تقاضے کے باوجود وفاقی وزرا یہ باور کرا چکے ہیں کہ کچھ آئینی وجوہات کے سبب الیکشن کے انعقاد میں دو سے تین ماہ تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔

گزشتہ روز ہی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ 2023 الیکشن کا سال نہیں ہے تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ انتخابات نومبر میں ہو جائیں گے۔

آج ایوان بالا سے منظور کی گئی قرارداد میں نشاندہی کی گئی کہ عدالت عظمیٰ صراحت کے ساتھ قرار دے چکی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل یا مدت پوری ہونے پر آئین کی دفعہ 224 میں مذکور مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ایک ایسا فریضہ ہے جس سے روگردانی ممکن نہیں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص یا ادارے کے پاس صرف وہی اختیار ہے جو آئین یا قانون نے اسے دیا ہے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت انتخابات کے انعقاد اور روزمرہ کے معمول کے فیصلوں کا اختیار رکھتی ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ یہ معزز ایوان الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 224 میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کرے۔

اس کے علاوہ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ معزز ایوان تمام ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 224 میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا اپنا آئینی فریضہ احسن طریقے سے ادا کرے۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 منظور

پیمرا ترمیمی بل 2023 کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور کر لیا گیا۔

ایوان بالا کے اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 میں مزید ترمیم کرنے کا بل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 فی الفور زیر غور لایا جائے۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہی تھیں— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب قومی اسمبلی میں اظہار خیال کررہی تھیں— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

اجلاس میں بل پر کافی دیر تک بحث ہوئی جس کے بعد اس کی شق وار منظوری دے دی گئی۔

بعد ازاں بل کی ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے بھی منظوری دے دی۔

قبل ازیں اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ پیمرا ترمیمی بل آج دوبارہ سینیٹ میں پیش کروں گی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا اور صحافیوں کے حقوق کے لیے اس بل میں تاریخی ترامیم لائی گئی تھیں لیکن اس بل کو کالا قانون کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعے ہم نے کونسل آف اپیل میں میڈیا مالکان کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی نمائندگی دی، صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر جرمانہ عائد کرنے کی تجویز دی گئی لیکن اس سب کے باوجود یہ کہا گیا کہ یہ بل لیبر لاز کے خلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پڑھے لکھے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی کہ یہ کالا قانون آرہا ہے اور اس کے ذریعے نگران حکومت میں صحافیوں کے گلے دبائے جائیں گے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ میں بل پر تنقید کرنے والوں کو بھی قابل احترام سمجھتی ہوں لیکن بیٹھے بٹھائے کسی چیز کو متنازع بنا دینا بھی مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کون سا ایسا صحافی ہے جو مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلانا چاہتا ہے؟ مجھے تو صحافی 10، 10 بار کال کرکے ایک، ایک خبر کی تصدیق کرتے ہیں، میں تصدیق کروں تو ہی خبر دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تک یہ حکومت کا بل تھا لیکن اب 3 روز کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میڈیا ورکرز کی جانب سے میں آج پیمرا ترمیمی بل دوبارہ سینیٹ میں پیش کروں گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں آج چیئرمین سینیٹ سے استدعا کروں گی کہ وہ دوبارہ اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے کی اجازت دیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس بل میں کوئی کمی بیشی رہ گئی تو ان شا اللہ دوبارہ آکر اس کمی کو بھی دور کردیں گے۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل 7 اگست کو مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023 واپس لینے کا اعلان کر دیا تھا۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس کنوینیر فوزیہ ارشد کی زیر صدارت ہوا جہاں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا۔

اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پیمرا کے پرانے سیاہ قانون کو ختم کرنا چاہتے تھے، چار سال اپوزیشن میں رہتے ہوئے میڈیا کے ساتھ کام کیا، مخلصانہ سوچ اور بڑی محنت سے یہ بل تیار کیا تھا، بعض شقوں کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کا احترام کرتے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ جبر، آمریت اور فسطائیت کے خلاف میڈیا کے ساتھ مل کر ہمیشہ جدوجہد کی، ایسا کوئی اقدام نہیں کر سکتے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ ہمیں میڈیا کی آزادی عزیز نہیں، میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز پہلے دن سے مشاورت اور بل کی تیاری کا حصہ رہے، پہلے دن سے یہی کہا تھا کہ متفقہ طور پر ہی بل منظور کرائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بل میں ادھر چھوڑ کر جا رہی ہوں جو حکومت بھی آئے گی وہ بل پر بحث کر لے گی، اگلی حکومت جو بھی آئے بل کو آگے لے کر جانے میں اپنا کردار ادا کروں گی۔

اجلاس میں صحافی تنظیموں کے نمائندوں، صحافیوں اور رپورٹرز نے کھڑے ہو کر بل کی حمایت کا اعلان کیا تھا، کمیٹی ارکان اور صحافیوں کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات پر زور دیا گیا کہ وہ بل واپس لینے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

پیمرا ترمیمی بل

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی بل 2023 دو اضافی شقوں کے ساتھ منظور کرلیا گیا تھا جس کے تحت ڈس انفامیشن آن ائر نہ جانے کی یقین دہانی لازمی ہوگی۔

پیمرا ترمیمی بل میں براڈکاسٹر کے لیے شفاف اور غیر جانب دار ریٹنگ اور یہ یقین دہانی لازمی قرار دی گئی ہے کہ کوئی ڈس انفارمیشن آن ائر نہیں کی جاسکے گی، مستند خبر کے زمرے میں حالات حاضرہ، مذہبی امور، قومی مفاد سمیت معاشرے سے متعلق تمام شعبہ جات آئیں گے۔

ٹی وی چینل کے ضابطہ کار میں ’ڈس انفارمیشن‘ نشر نہ کرنے کی شرط شامل کی گئی ہے، ترمیمی بل میں ڈس انفارمیشن کی وضاحت بھی کردی گئی ہے، جس کے مطابق ڈس انفارمیشن سے مراد جان بوجھ کر غلط معلومات دینا ہے۔

بل میں ڈس انفارمیشن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ڈس انفارمیشن سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، سازباز سے تیار کردہ یا جعلی ہو، ایسی خبر ڈس انفارمیشن کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لیے دی گئی ہو اور متعلقہ شخص کا مؤقف لیے بغیر دی گئی ہو تو وہ خبر ’ڈس انفارمیشن ’کی تعریف میں شامل ہوگی۔

واضح کیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کا مؤقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طرح اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ دی گئی ہو، اسی طرح مس انفارمیشن سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہوگیا ہو۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل-19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہوگی۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل میں الیکٹرونک میڈیا کے لیے کہا گیا ہے کہ معمول کے پروگرام کے دوران 5 منٹ سے زیادہ کا اشتہار نہیں چلایا جاسکے گا اور معمول کے پروگرام میں دو بریک کے دوران دکھائے جانے والے اشتہارات کا دورانیہ 10 منٹ سے کم نہیں ہوگا۔

بل میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی چینل کے پروگرام کا کنڈٹ ٹمپرڈ لوگو کے ساتھ سوشل میڈیا پر نہیں ڈالا جاسکے گا، الیکٹرونک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواد اپنی نشریات میں استعمال کرے گا۔

پیمرا ترمیمی بل میں کہا گیا کہ عمومی ترقی، توانائی، معاشی ترقی سے متعلق مواد بھی نشریات میں شامل کیا جائے گا۔

پیمرا ترمیمی بل 20- اے کی نئی شق میں الیکٹرانک میڈیا کو ملازمین کی بر وقت تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ بروقت ادائیگی سے مراد الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کو دو ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔

بل کی نئی شق 20- بی کے تحت الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا اورشکایات کونسل کے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے تمام فیصلوں اور احکامات کی پاسداری کا پابند بنایا گیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اشتہارات متعلقہ الیکٹرونک میڈیا کو فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

ترمیم کے تحت براڈ کاسٹ میڈیا کا لائسنس 20 سال کے لیے اور ڈسٹری بیوشن لائسنس 10 سال کی مدت کے لیے کارآمد ہوگا، تاہم نافذالعمل فیس ادا کرنا ہوگی لیکن اس میں سالانہ مجموعی تشہیری آمدن شامل نہیں ہوگی۔

بل میں پیمرا اراکین کی تعداد کے حوالے سے بھی ترمیمی کی گئی ہے، سیکشن 6 میں ترمیم کرکے ارکان کی متعین تعداد ختم کرکے پیمرا اراکین کی تقرری کا اختیار صدر پاکستان کو دیا گیا ہے۔

پیمرا اراکین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بوقت ضرورت چیئرمین پیمرا کے سفارش کردہ ارکان کی تعیناتی ہوگی، یہ ارکان بغیر ووٹنگ کے مقرر ہوں گے اور یہ اعزازی طور پر کام کریں گے۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کے دو ارکان میں سے ایک براڈ کاسٹرز اور دوسرا پی ایف یو جے کا نمائندہ ہوگا، پیمرا کا اجلاس اب وڈیو لنک اور سرکولیشن کے ذریعے بھی منعقد ہوسکے گا۔

ترمیمی بل میں پیمرا کے اختیارات چیئرمین، کسی رکن یا اتھارٹی کے افسر کو تفویض ہوسکیں گے، ان اختیارات میں کیبل ٹی وی کے سوا کسی براڈکاسٹ میڈیا یا ڈسٹری بیوشن کا لائسنس دینے، منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اختیار شامل نہیں ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ عوام، اداروں اور دیگر کی شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں شکایات کونسلز بنائی جائیں گی جو الیکٹرانک میڈیا میں کم ازکم تنخواہ کی حکومتی پالیسی، بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کا نفاذ یقینی بنائیں گی۔

شکایات کونسلز الیکٹرونک میڈیا کے خلاف شکایات کی سماعت، اپنی آرا اور سفارشات پیمرا کو ارسا ل کریں گی۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ شکایت کونسل ایک چئیرمین اور 5 ارکان پر مشتمل ہوگی، اس میں کام کرنے والے افراد کی مدت دو سال کے لیے ہوگی۔

بل میں سزاؤں کا تعین بھی کیا گیا ہے، جس کے مطابق 29- اے کے نئے سیکشن کے تحت 10 لاکھ جبکہ سنگین خلاف ورزی پر ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔

پیمرا کے فیصلوں کے خلاف متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں