بنگلہ دیش: رہنما جماعت اسلامی سپرد خاک، دورانِ حراست وفات پر ہزاروں افراد کا احتجاج

اپ ڈیٹ 16 اگست 2023
دلاور حسین سعیدی کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی— فوٹو: اے ایف پی
دلاور حسین سعیدی کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی— فوٹو: اے ایف پی

بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے 83 سالہ رہنما دلاور حسین سعیدی کے جنازے میں تقریباً 50 ہزار افراد نے شرکت کی، جن کی جیل میں موت کی خبر کے بعد پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جماعت اسلامی کے 83 سالہ رہنما دلاور حسین سعیدی کو 2013 میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے دوران جنگی جرائم کے الزام میں 2013 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کے نائب صدر تھے۔

دلاور حسین سعیدی ڈھاکا کے باہر ایک جیل میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد انتقال کر گئے تھے، جس کے بعد دارالحکومت میں پر تشدد مظاہرے شروع ہوئے۔

پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں دلاور حسین سعیدی کی آبائی شہر فیروز پور میں نماز جنازہ ادا کی گئی، جبکہ ان کی میت کو سپرد خاک کرنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

ڈپٹی ڈسٹرکٹ پولیس چیف شیخ مستفیض الرحمٰن نے بتایا کہ جنازے میں تقریباً 50 ہزار افراد نے شرکت کی، مزید بتایا کہ ان کی تدفین کے موقع پر کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔

تاہم ملک کے دیگر حصوں میں دلاور حسین سعیدی کی یادگاری تقریب منعقد کرنے کی کوشش کرنے والے گروپ اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

چکریا کے ڈیوٹی پولیس افسر محمد سلیم میا نے بتایا کہ جمع ہونے والے افراد نماز جنازہ ادا کرنا چاہتے تھے، ان کے اور پولیس کے درمیان تصادم ہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک شخص کی موت ہوئی ہے جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔

دلاور حسین سعیدی کی موت کے بعد جماعت اسلامی کے ہزاروں حامی سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔

ڈھاکا میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فرخ حسین نے بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

مزید بتایا کہ پولیس نے جماعت اسلامی کی طرف سے دارالحکومت میں نماز جنازہ کے بعد احتجاج کرنے درخواست مسترد کر دی تھی۔

پولیس کے مطابق بنگلہ دیش کے بااثر اسلامی رہنما کی آخری رسومات میں تقریباً 50 ہزار افراد نے شرکت کی، جنگی جرائم کے الزام میں قید رہنے والے رہنما کی موت کی خبر کے بعد حکومت مخالف پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے۔

1980 میں ملک کی بڑی مساجد میں تبلیغ شروع کرنے کے بعد دلاور حسین سعیدی نمایاں ہوئے، انہوں نے اپنی تقاریر کے ذریعے لاکھوں افراد کو اپنی جانب راغب کیا جبکہ ان تقاریر کی ریکارڈنگ بھی بڑے پیمانے پر تقسیم کی گئیں۔

جنگی جرائم ٹریبونل کی جانب سے ایک دہائی قبل ان کو سنائی گئی سزا پر مروجہ طریقہ کار کو نظر انداز کرنے پر رائٹس گروپ کی جانب سے تنقید کی گئی، جس کے سبب بنگلہ دیش کی تاریخ کے مہلک ترین مظاہرے ہوئے تھے جس میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں