گلگت: تاریخی مشن میں پہلے افغان کوہ پیما کی لاش ’کے ٹو‘ سے برآمد

اپ ڈیٹ 20 اگست 2023
7 ہزار 200 میٹر کی بلندی سے لاش کو نیچے لانا ناقابل یقین حد تک مشکل اور پرخطر کام تھا جو ماضی میں کبھی نہیں کیا گیا تھا — فوٹو: ڈان
7 ہزار 200 میٹر کی بلندی سے لاش کو نیچے لانا ناقابل یقین حد تک مشکل اور پرخطر کام تھا جو ماضی میں کبھی نہیں کیا گیا تھا — فوٹو: ڈان

گزشتہ سال کے ٹو کیمپ 3 میں انتقال کرنے والے افغانستان کے پہلے کوہ پیما کی لاش برآمد کر کے اس کے آبائی ملک روانہ کر دی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسکردو سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں کی 6 رکنی ٹیم نے اس مشن میں حصہ لیا جب کہ یہ کے ٹو سر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے مہم جو کی لاش واپس لانے کا پہلا واقعہ ہے۔

گزشتہ برس جولائی میں مہم جو ٹیم کا حصہ بننے والا پہلا افغان کوہ پیما 34 سالہ علی اکبر سخی کے ٹو سر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مبینہ طور پر کیمپ 3 میں انتقال کر گیا۔

مرحوم حسن سدپارہ کے بیٹے عابد سدپارہ نے لاش کو واپس لانے کے مشن کی قیادت کی جب کہ ٹیم ارکان میں صادق سدپارہ، علی موسیٰ، عارف سدپارہ، مراد علی شگری اور عابدین شگری شامل تھے۔

عابد شگری نے ڈان کو بتایا کہ افغان کوہ پیما کی لاش کی تلاش اور واپسی کا آپریشن پاک فوج کے تعاون سے کیا گیا۔

یہ ایک اہم کامیابی ہے جب کہ بے پناہ چیلنجز کی وجہ سے یہ کام پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، کے ٹو سر کرنے کے لیے پہلے ہی ایک انتہائی مشکل چوٹی ہے، اس پر چڑھنا اور اترنا تکنیکی طور پر بہت محنت طلب کام ہے جب کہ یہاں کا غیر متوقع موسم، چٹانیں گرنا، ناہموار، انتہائی دشوار گزار راستہ اسے دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں سے ایک بنا دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1952 سے اب تک کم از کم 586 کوہ پیما جن میں مقامی اور عالمی دونوں کوہ پیما شامل ہیں، کے ٹو سر کرنے کی کوششوں کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

عابد سدپارہ نے کہا کہ مقامی ٹیم نے 7 ہزار 200 میٹر کی بلندی پر لاش دریافت کی اور 6 روز میں یہ مشن کامیابی سے مکمل کیا، انہوں نے لاش نیچے لانے کے لیے نئی رسیاں لگائیں، انہوں نے کہا کہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن پاک فوج کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

ہلاک ہونے والے افغان کوہ پیما کی میت کو بیس کیمپ سے سی ایم ایچ اسکردو منتقل کرنے میں آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سہولت فراہم کی گئی۔

اس کے بعد لاش کو لواحقین کے حوالے کیا گیا، اس کے بعد پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے اسلام آباد پہنچایا گیا اور پھر افغانستان روانہ کردیا گیا۔

کے ٹو پر ہر قدم انتہائی مشکل ہے، 7 ہزار 200 میٹر کی بلندی سے لاش کو نیچے لانا ناقابل یقین حد تک مشکل اور پرخطر کام تھا جو ماضی میں کبھی نہیں کیا گیا تھا۔

اس مشن کی تکمیل کے لیے ہنر مند نیپالی کوہ پیماؤں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کام کی پیچیدگی کی وجہ سے انہوں نے انکار کر دیا تھا، افغان کوہ پیما کی لاش کافی محفوظ پائی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں