لکھاری شاعر ہیں۔
لکھاری شاعر ہیں۔

ان کے پاس نہرو گاندھی خاندان ہے، ہمارے پاس بھٹو زرداری خاندان ہے۔ ان کے پاس ایک غیرملکی نژاد خاتونِ اول تھی، ہمارے پاس بھی ہوسکتی تھی لیکن وہ پہلے ہی اس سب سے الگ ہوگئیں۔ ان کے پاس راہول ہے، ہمارے پاس بلاول۔ یہ دونوں ہی انہیں مختلف انداز میں پپو اور بچہ وغیرہ کہنے والے عمر رسیدہ حریفوں کے مقابلے میں جوان ہیں۔

دونوں ممالک میں اعلیٰ عدلیہ اہم سیاسی کردار ادا کرتی ہے۔ دونوں ہی ممالک میں قانون سازوں کے خلاف شرم ناک تعداد میں جرائم کے مقدمات ہیں جن میں بکری چوری سے لےکر قتل تک کے مقدمات شامل ہیں۔ مماثلتوں کی ناختم ہونے والی ایک فہرست ہے لیکن جہاں ہم ایک واضح فرق ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک میں انتخابی مہم اور سیاسی منظرنامے کیسے تشکیل دیے جاتے ہیں۔

انتخابی مہم کے تکنیکی پہلوؤں کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے کچھ حد تک نقل کیا ہے لیکن جہاں تک عملی کام کا تعلق ہے تو ہم اس میں واضح طور پر پیچھے رہ چکے ہیں کیوں کہ اس میں لگژری گاڑیوں میں نکلنے والی ریلیوں اور دھرنوں کا شمار نہیں ہوتا جہاں شرکا کو بریانی کھلائی جاتی ہے۔

یہاں ایک اہم مثال بھارت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا، بھارتی پنجاب اور ہریانہ اور واشنگٹن اور نیویارک کے درمیان ان کی ٹرک ریلی ہے۔ دونوں کوششوں کا مقصد کم از کم جزوی طور پر اس تنقید کو دور کرنا تھا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت سڑکوں پر نہیں آرہی اور اندرون اور بیرون ملک مقیم شہریوں کی زندگیوں سے بہت دور ہے۔

ہماری سیاسی اشرافیہ کا عوام کے لیے باہر نکلنا صرف ٹخنوں تک گہرے بارش کے پانی میں گھٹنوں تک بوٹس پہنے گھومنے یا یتیم خانوں اور پناہ گاہوں کے دوروں تک ہی محدود ہے جہاں ان کی عوامی ہمدردی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ’وہ عام لوگوں میں گھل مل گئے‘۔ عمران خان جیل میں ہیں لیکن انہیں صحت کی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ نہ ہی ریفری انہیں ’آؤٹ‘ کرنا چاہیں گے کیونکہ فکسڈ میچوں کے لیے بھی کھلاڑیوں کی ضرورت تو ہوتی ہے۔

کچھ لوگ بلاول کے دفاع میں اُٹھ سکتے ہیں اور ان کے خاندان کے خلاف جبر کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے سڑکوں پر نہ آنے کے پیچھے مسلسل سیکیورٹی خطرات کو وجہ بتا سکتے ہیں۔ لیکن یہ جواز ٹھیک نہیں کیونکہ راہول گاندھی کی دادی اور والد بھی گولیوں اور خودکش دھماکوں میں اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ ان کی دادی کو وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے قتل کیا گیا جبکہ والد بطور سابق وزیراعظم حملہ آوروں کا نشانہ بنے۔ پارلیمنٹ میں بلاول کی آخری تقریر اور اس کے بعد ان کے بیانات سے شاید ان کا باغیانہ مزاج سامنے آرہا ہو لیکن انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بوجھ سے جان چھڑانے کے ساتھ اس سے حاصل کیے گئے فوائد کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔

تجربہ کار صحافی اور ’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ کے مصنف سنجے بارو کا ماننا ہے کہ کوئی بھی سیاست دان جو 10 فیصد ووٹرز سے بھی رابطہ قائم کر سکتا ہے تو وہ ایک طاقتور سیاستدان ہے۔ سنجے بارو نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر کے طور پر اقتدار کی سیاست کا مشاہدہ کیا تھا، وہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت جوڑو یاترا کانگریس کی بحالی اور راہول گاندھی کے بطور پارٹی سربراہ ابھرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی موجودہ حکومت اپوزیشن لیڈر کو میدان سے باہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وزیر اعظم مودی کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے الزام میں دو سالہ سزا کا حکم سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد راہول گاندھی اپنی لوک سبھا سیٹ پر بحال ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

اپنے خلاف عائد بہت سے الزامات میں سے عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر متعدد مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ قانون سازی پارلیمنٹ نے غیر ضروری عجلت میں کی تھی۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون سازی خصوصاً پی ٹی آئی کے لیے کی گئی ہے۔

معاملہ صرف یہ نہیں کہ عمران خان نے خفیہ معلومات کو راز نہیں رکھا جن میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکی سازش سے لے کر ٹینکوں کے فیول گیجز کے بارے میں ایک سابق آرمی چیف کے مبینہ بیان تک شامل ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد کی متعدد قانون سازی کو آگے بڑھانے میں غیر مناسب جلد بازی نے جمہوری اصولوں کو اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہونے کے خوش کن اعلانات نے پہنچایا تھا۔

جواہر لعل نہرو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران اس وقت کے کانگریس کے صدر اچاریہ کرپلانی سے کہا تھا کہ اگر وہ جاننا چاہتے ہیں کہ سرکاری اجلاسوں میں بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے تو وہ ان کی کابینہ میں بغیر قلم دان کے وزیر کے طور پر شامل ہوسکتے ہیں کیوں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ انہیں کابینہ اراکین کے علاوہ کسی کے ساتھ خفیہ معلومات شیئر کرنے سے روکتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی آر ایس ایس کو کیا کچھ بتاتے ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے عہدیداروں کے ساتھ اس کے ساتھ ان کے ملنے ملانے کا سب کو علم ہے۔

بھارت کے پاس من موہن سنگھ اور راجیو گاندھی جیسے ایکسیڈینٹل یا حادثاتی وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ایکسیڈینٹل اور ڈینٹل صدور رہ چکے ہیں۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ پاکستانی ووٹرز کو اپنا اگلا وزیراعظم منتخب کرنے کی اجازت دی جائے گی اور ایسا احتیاط سے کیا جائے گا اور انتخاب سے پہلے اور بعد میں کوئی حادثاتی بات نہیں ہوگی۔ تاہم یہ امید کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہوگا کہ اگلی حکومت کا غیر سیاسی لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا۔


یہ مضمون 22 اگست 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں