صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کی مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے آج یا کل ملاقات کی دعوت دے دی۔

صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں آئینی تقاضے کا حوالہ دیا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات ضروری ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری خط کی کاپی کے مطابق صدر مملکت نے آج لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی 9 اگست 2023 کو تحلیل کردی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کا پابند ہے جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔

صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ جب صدر، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور اس کا شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 یا 224 اے کے مطابق نگران کابینہ تشکیل دی جائے گی۔

چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت نے کہا کہ لہٰذا مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے آج یا کل ملاقات کی دعوت دی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ 9 اگست کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی تھی۔

شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری صدر مملکت کو بھیجی تھی جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کیے تھے۔

صدر مملکت نے قومی اسمبلی وزیر اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت کی تحلیل کی۔

آرٹیکل 58 کے مطابق اگر صدر، وزیر اعظم کی سفارش کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی۔

شہباز شریف نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں صدر مملکت سے عبوری حکومت کی تشکیل کی درخواست بھی کی تھی۔

6 اگست کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسمبلیاں اپنی مقررہ مدت سے 3 روز قبل 9 اگست کو تحلیل کر دی جائیں گی، جس کے بعد انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں گے۔

تحلیل ہونے والی اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی تھی تاہم مقررہ وقت سے قبل اسمبلی تحلیل کیے جانے کے سبب الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت آئندہ 90 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا ہوگا۔

اگر اسمبلی اپنی مدت مکمل کر لیتی تو الیکشن کمیشن کو 60 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا پڑتا۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے شائع سرکاری نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات سے معاونت طلب کی تھی، اس سلسلے میں ضروری احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق حلقہ بندیاں حتمی طور پر 14 دسمبر 2023 کو شائع کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن سے جاری شیڈول کے مطابق 17 اگست 2023 تک ملک کے تمام نوٹس کی حدود منجمد کردی گئی ہیں جس کا الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری کردے گا اور 21 اگست تک اسلام آباد سمیت ہر صوبے کے لیے حلقہ بندیوں کی کمیٹیاں تشکیل دے دی جائیں گی۔

اس کے بعد 31 اگست تک انتظامیہ امور نمٹانے کے بعد حلقہ بندیوں کی کمیٹیوں کو یکم سے چار ستمبر تک تربیت دی جائے گی اور 5 سے 7 اگست تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ڈسٹرکٹ کوٹہ کا تعین اور اسے شیئر کیا جائے گا۔

8 ستمبر سے 7 اکتوبر تک کمیٹیاں ابتدائی حلقہ بندیاں کریں گی جس کے بعد 9 اکتوبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ شائع کی جائے گی۔

10 اکتوبر سے 8 نومبر تک حلقہ بندیوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کے اعتراضات کمیشن کے سامنے دائر کیے جا سکیں گے اور 10 نومبر سے 9 دسمبر تک کمیشن ان اعتراجات پر سماعت کرے گا جس کے بعد 14 دسمبر 2023 کو حتمی حلقہ بندیاں شائع کردی جائیں گی۔

’صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز کے پابند ہیں‘

اسلام آباد میں قائم پالیسی تھنک ٹینک پلڈاٹ کے چیئرمین احمد بلال محبوب نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت پابند ہیں اور یہ اختیار آزادانہ طور پر استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر مملکت کا خط وزیراعظم کی تجویز کی بنیاد پر ہے تو یہ آئین کے مطابق ہے، دوسری صورت میں یہ آئین سے انحراف ہے، انتخابات کے لیے تاریخ کا تعین کرنا صدر مملکت کا صوابدیدی اختیار نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ قانون کو آئین کے تحت بنایا جاتا ہے لیکن پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ صدر آزادانہ طور پر انتخابات کی تاریخ وزیراعظم کی تجویز کے بغیر نہیں دے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات ہوں گے، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں یہ تعریف اطمینان بخش نہیـں ہے، میرا خیال ہے کہ آئین انتخابات کا اختیار دیتا ہے اور میرے ماننا ہے کہ حلقہ بندی آئینی طور پر ضروری نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ انہیں یہ معاملہ حتمی طور پر سپریم کورٹ جاتے ہوئے نظر آرہا ہے۔

الیکشن کمیشن کی سیاسی جماعتوں کو مشاورت کی دعوت

ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے مشاورت کے لیے سیاسی جماعتوں کو خط لکھا اور جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دے دی ہے۔

الیکشن کمیشن نے خط میں لکھا کہ سیاسی جماعتوں سے انتخابی شیڈول، حلقہ بندیوں، انتخابی فہرست اور عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سےمتعلق مشاورت کے لیے خط لکھ دیا گیا۔

خطوط پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فصل الرحمان کو لکھے گئے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے مطابق انتخابات کا انعقاد کرے اور انتخابات یقینی بنانے کے لیے ضروری انتظامات کرے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ایمان داری، انصاف کے ساتھ، منصفانہ اور قانون کے مطابق کرائے جاتے ہیں، موجودہ سیاسی منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے انتخابی روڈ میپ کے لیے دعوت دینے کا فیصلہ کیا۔

سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ شہباز شریف، آصف زراری، فضل الرحمن اور عمران خان مشاورت کے لیے خود آئیں یا اپنا نمائندہ مقرر کریں۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی یا ان کا نمائندہ 24 اگست کو مشاورتی عمل میں شرکت کرے اور اسی طرح مولانا فضل الرحمن یا ان کے نمائندے کو بھی انتخابی مشاورت کے لیے 24 اگست کو دن تین بجے بلا لیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف یا ان کے نمائندے کو 25 اگست کو دن 11 بجے جبکہ آصف زرداری یا ان کے نمائندے کو 29 اگست کو دن تین بجے الیکشن کمیشن آنے کی دعوت دی گئی ہے۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بیان میں کہا کہ انتخابی عمل پر مشاورت کے لیے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو باضابطہ دعوت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 25 اگست کی صبح 11 بجے الیکشن کمشن آنے کی دعوت دی ہے اور پارٹی نے 7 رکنی پارٹی وفد تشکیل دے دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفد مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، زاہد حامد، صدر پنجاب رانا ثنااللہ خاں، خواجہ سعد رفیق، خیبرپختونخوا کے صدر انجینئر امیر مقام اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا اللہ تارڑ پر مشتمل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں