نیب ترامیم کیس: نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستیں طلب

اپ ڈیٹ 30 اگست 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نئے نیب قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستیں طلب کر لیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت میں موجود تھے، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’گُڈ ٹو سی یو اٹارنی جنرل صاحب۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل اخبار میں عدالت کی آبزرویشنز پڑھی، مجھ سے منسوب کیا گیا کہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں نقائص ہیں، عدالت کے سامنے متعلقہ حکم پڑھنا چاہتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے 8 جون کا آرڈر پڑھ کر سنایا اور کہا کہ میں نے لفظ ’نقائص‘ نہیں ’اوور لیپنگ‘ استعمال کیا تھا، لیکن رپورٹنگ کچھ اور ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون سے اخبار میں رپورٹ ہوا ہے؟ میرے پاس سارے اخبارات کی کلپنگ موجود ہیں لیکن خبر کے ساتھ کسی کی بائی لائن نہیں تھی، پتا نہیں کیوں میرے حوالے سے سنسر شپ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آرہی انگریزی اخبارات میں خبر رپورٹر کے نام سے شائع کیوں نہیں کی جا رہی، معلوم نہیں کیا یہ کوئی سنسر شپ کا نیا طریقہ آیا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے دیکھا اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے بہت متحرک رہی، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو ایکٹ پر نظرثانی ترجیحات میں نہیں تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمان، ریویو ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی، عدالت نے سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پر فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا تفصیلی وجوہات کا انتظار تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی ہر بات مانیں گے مگر یہ بات تسلیم نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ کہہ چکے ہیں کہ نیب ترامیم میں بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں، نیب ترامیم کیس کوجلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

دریں اثنا عدالت نے نئے نیب قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستیں طلب کر لیں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ نیب ترمیم کے بعد کتنے کیسز عدالتوں سے واپس ہوئے فہرست فراہم کی جائے، ایک فہرست نیب جمع کرا چکا ہے لیکن اسے مزید اپڈیٹ کر کے دوبارہ جمع کرائے۔

چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ نئے نیب قانون میں کون سی ایسی پرانی شقیں ہیں جنہیں ختم نہیں کیا گیا، نئے نیب قانون میں کئی اچھی چیزیں بھی ہیں، نیب قانون کی وجہ سے کئی لوگوں نے بغیر جرم جیلیں کاٹیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ نئے نیب قانون سے کس کس نے فائدہ اٹھایا۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ پاکستان میں احتساب کا ادارہ صرف نیب ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جاتا رہا ہے اور اس چیز کو روکنا چاہیے کہ کوئی انتقامی کارروائی نہ کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہم اس مقدمے میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، اس کیس میں کوئی سیاسی جماعت، مالیاتی ادارہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فوکس رکھنا ہو گا کہ نیب ترمیم کا ٹارگٹ کون ہیں، احتساب جمہوریت کی بنیاد ہوتا ہے اور انتخابات اور ووٹ بھی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کے احتساب کا ایک طریقہ کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے کئی جرائم کو ختم کیا گیا، کچھ کی حیثیت تبدیل کی گئی اور ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا ہی انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے، کم سے کم حد 50 کروڑ کرنے سے کئی مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ایک ہی ملزم پر کئی مقدمات بنا لیتا ہے جن میں سیکڑوں گواہان ہوتے ہیں، سیکڑوں گواہان کی وجہ سے نیب مقدمات کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں، اصل چیز کرپشن کے پیسے کی ریکوری ہے اور ریکوری نہ بھی ہو تو کم از کم ذمہ دار کی نشاندہی اور سزا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ نیب قانون میں کئی خامیاں ہیں اور اس کا اطلاق بھی درست انداز میں نہیں کیا گیا۔

سرکاری وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب قانون کا غلط استعمال ہو رہا تھا، ترمیم لازمی تھیں، اسفند یار ولی اور کئی دیگر مقدمات میں نیب قانون کے بارے میں آبزرویشن دی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تک ہمیں پتا نہیں کہ کون سا بنیادی حق متاثر ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کرپشن کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے اور کرپشن سے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں، جبکہ کرپشن سے آپ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، آپ کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ایک خاص طبقے کے پاس ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو لیول پلینگ فلیڈ نہیں ملتی،کرپشن سے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، یہ معاملہ پھر بنیادی حقوق تک پہنچ جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لیول پلینگ فلیڈ سیلاب متاثرین سے لے کر کئی لوگوں کو نہیں ملتی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ ہم نے دیکھنا ہے، کیا ہم کہہ دیں آج سے ان علاقون میں کوئی رہے ہی نہ جہاں سیلاب آتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آدھا ملک ایسی جگہوں پر آباد ہے اور زندگی تو فیئر ہے ہی نہیں، سوسائٹی میں یہ مسائل ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ قانون سازی سے کسی غلط چیز کا دروازہ تو نہیں کھولا گیا، یہ کہہ دینا کہ احتساب کا بنیادی حقوق سے کوئی نہیں بہت سادہ بات لگتی ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف وہ شخص عدالت آیا جو خود وزیراعظم رہ چکا ہے، جب وہ وزیراعظم تھے وہ خود اور ان کے وزیر خزانہ بھی کہتے تھے نیب قانون سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں