پنجاب انتخابات کیس: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی اپیل مسترد کردی

اپ ڈیٹ 31 اگست 2023
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل مسترد کردی جب کہ 4 اپریل کو اپنے متفقہ فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 10 اپریل سے 8 اکتوبر کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو صوبے میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات 14 مئی کو کروانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن نے تیاری کے لیے عدالت سے مزید ایک ہفتے کی مہلت طلب کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا مؤقف بتائیں ہم بھی کیس کا جائزہ لیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ میں نے کیس میں اضافی گراؤنڈز تیار کیے ہیں، سب سے اہم سوال الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار کا تھا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 میں ترمیم ہوچکی ہے جس کے بعد اب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ وکیل صاحب ذہن میں رکھیں یہ نظرثانی کیس ہے، مرکزی کیس الگ تھا۔

سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ کا پنجاب انتخابات سے متعلق تفصیلی فیصلہ ملا جس کی روشنی میں کچھ اضافی دستاویزات جمع کرانا چاہتے ہیں، عدالت نے کہا کہ جو فیصلہ آیا وہ کیس ختم ہوچکا، جواب ہمارے ساتھ عدالت میں ہی پڑھیں۔

عدالت نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا نظرثانی کیس سے کوئی تعلق نہیں، انتخابات کی تاریخ دینے کا مقدمہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے، نظرثانی کیس میں جو نکات اٹھانا چاہتے ہیں، وہ بتائیں، مگر اس میں آپ دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے، لہٰذا یہ بتائیں کہ عدالتی فیصلے میں غلطی کہاں ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین الیکشن کیشن کو اختیار نہیں، ذمہ داری دیتا ہے، صدر کی تاریخ تبدیل کرنےکا معاملہ بڑا اہم قانونی نکتہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئینی اختیارات کو الیکشن کمیشن نے آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا دلائل دے رہے ہیں، کبھی ادھر کبھی ادھر جارہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ تیسری مرتبہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن نے ذمہ داری کی روشنی میں اختیارات کا استعمال کرنا ہے، کمیشن کی ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کرانا ہے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہوں گے مگر الیکشن کمیشن کہتا ہے تاریخ تبدیل کرنےکا اختیار ہے، البتہ عدالت الیکشن کمیشن کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتی اور نظر ثانی میں دوبارہ دلائل کی اجازت نہیں۔

عدالت نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں دیتا، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے کی حد پر کچھ وجوہات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی معروضات کے بارے کچھ غلطیاں ہیں۔

عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 218 شق تین کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات ’آرگنائز اورکنڈکٹ‘ کرانے ہیں، الیکشن کمیشن کو انتخابات آرگنائزر اور کنڈکٹ 90 روز کی آئینی مدت میں کرانے ہیں، الیکشن کمیشن نے یہ چھوٹ خود کو کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیر کر سکے؟

عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن پانچ سال تک یقینی نہیں بناتا کہ انتخابات شفاف ہو سکیں گے تو کیا انتخابات نہیں ہوں گے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ یہ میری دلیل نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب بھی کہیں آئین کی خلاف ورزی ہوگی تو عدلیہ مداخلت کرے گی کیونکہ آئین کسی کی جاگیر نہیں ہے، کوئی بھی ادارہ آئین سے تجاوز نہیں کرسکتا اور آئین کے تحت الیکشن کمیشن تین ماہ میں انتخابات کروانے کا پابند ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد پنجاب انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کے خلاف درخواست خارج کردی۔

خیال رہے کہ رواں سال 4 اپریل کو اپنے متفقہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 10 اپریل سے 8 اکتوبر کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو صوبے میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے اور الیکشن کمیشن کو الیکشن کے حوالے سے سیکیورٹی پلان فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، عدالت نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ وہ اسے پیش رفت سے آگاہ رکھیں۔

تاہم بعد میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹس میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ اس وقت کی حکومت فنڈز جاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

اس وقت کی حکومت نے کہا تھا ملک کے دیگر حصوں سے الگ صرف پنجاب اور کے پی میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے، اس سے اخراجات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے، سیکیورٹی سے متعلق اقدامات پر بھی معذوری کا اظہار کیا گیا تھا۔

عدالت کے حکم پر 14 مئی کو انتخابات منعقد کرانے کی تاریخ میں جب دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا تو 3 مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالت کے 4 اپریل کے حکم پر نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے ذمہ داری پوری نہیں کر سکا، عدالت کا شارٹ آرڈر برقرار ہے، الیکشن کمیشن کا اہم کام انتخابات کروانا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابقہ حکومت جون میں الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی تھی، انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد الیکشن کمیشن کو صدر سے مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں