ترامیم کالعدم ہونے کے بعد بند کرپشن کیسز دوبارہ کھولنے کیلئے نیب کا احتساب عدالتوں کو خط

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2023
نیب ترامیم میں پی ڈی ایم حکومت نے نیب کے اختیارات کو کم کردیا تھا — فائل فوٹو: بشکریہ قومی احتساب بیورو
نیب ترامیم میں پی ڈی ایم حکومت نے نیب کے اختیارات کو کم کردیا تھا — فائل فوٹو: بشکریہ قومی احتساب بیورو

سپریم کورٹ کی جانب سے پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں ہونے والی نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے اور ان سے 50 کروڑ روپے سے کم مالیت والے کرپشن کیسز دوبارہ کھولنے کا کہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم حکومت نے ترامیم کرکے نیب کے اختیارات کو کم کردیا تھا اور اس کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے تمام کیسز کا نوٹس نہیں لے سکتا تھا۔

ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے بعد نیب نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، تمام صوبوں میں انسداد بدعنوانی کے محکموں، بینکنگ کورٹس اور پولیس کو بھی خط لکھ دیا ہے کہ وہ تمام مقدمات نیب کو واپس بھیج دیں، جو ان محکموں کو ان ترامیم کی وجہ سے بھیج دیے گئے تھے، جن کے تحت نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم کے کیسز کا نوٹس لینے سے روک دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے تقریباً ایک ہزار 800 بند کیسز کو عملی طور پر دوبارہ کھول دیا، تاہم پہلے سے طے شدہ یا نمٹائے گئے کیسز کو نیب کے ذریعے نہیں کھولا جائے گا۔

نیب ذرائع نے بتایا کہ تمام عدالتوں اور محکموں سے رجوع کرنے کا فیصلہ چیئرمین نیب کی زیرِ صدارت حالیہ اجلاس میں کیا گیا، اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے احتساب عدالتوں سے رجوع کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق نیب ہیڈکوارٹرز نے بند مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے رجسٹرار احتساب عدالت اسلام آباد کے سامنے ایک درخواست جمع کرائی ہے، نیب کے تمام علاقائی ہیڈکوارٹرز نے بھی اس مقصد کے لیے علاقائی احتساب عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔

نیب ذرائع کے مطابق احتساب عدالتوں نے نئی ترامیم کے بعد 50 کروڑ روپے سے کم کے وائٹ کالر کرائم کیسز نیب کو واپس بھیج دیے ہیں۔

ذرائع نے مزید کہا کہ اب نیب نے احتساب عدالتوں سے درخواست کی ہے کہ نیب کی جانب سے دوبارہ عدالتوں میں بھیجے جانے والے ان تمام کیسز کی سماعت کی جائے، ہم دوبارہ کھولے جانے والے کیسز کی صحیح تعداد کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن یہ تقریباً 1600 سے 1800 کے درمیان ہوں گے۔

نیب اور احتساب عدالتوں کی جانب سے پہلے سے نمٹائے جانے والے کیسز کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر طے کیا جا چکا ہے کہ ایسے کیسز کسی قسم کے اقدمات یا تحقیقات کے لیے دوبارہ نہیں کھولے جائیں گے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کے نتیجے میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی اور شوکت عزیز کے خلاف بھی کیسز کھل گئے ہیں۔

جن دیگر بڑی شخصیات کے کیسز دوبارہ کھولے گئے ہیں ان میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، فریال تالپور، سید مراد علی شاہ، جاوید لطیف، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا اور دیگر شامل ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت میں شامل شوکت ترین، پرویز خٹک، عامر محمود کیانی اور خسرو بختیار کو بھی نیب کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے یا لارجر بینچ اس پر نظرثانی کر سکتا ہے لیکن فیصلہ چیلنج کرنے والوں کو نظرثانی کے لیے ٹھوس وجوہات پیش کرنا ہوں گی، تاہم موجودہ نگران حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔

گزشتہ ہفتے نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا تھا کہ حکومت نیب قوانین میں ترامیم سے متعلق کیس پر عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں