زیرالتوا مقدمات کی کافی تعداد ہے، تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2023
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں کوئی کیس آتا ہے تو اس کے سارے کاغذات پورے ہونے چاہئیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں کوئی کیس آتا ہے تو اس کے سارے کاغذات پورے ہونے چاہئیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کافی زیادہ ہے، یہاں تو ایک تاریخ پر نوٹس اور اگلی تاریخ پر دلائل ہوجانے چاہئیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے زمین تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

وکیل نے آئندہ کی تاریخ دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اپنے ذہن سے یہ تصور نکال دیں کہ سپریم کورٹ میں جا کر تاریخ لے لیں گے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کے توسط سے سب کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کافی زیادہ ہے، یہاں تو ایک تاریخ پر نوٹس اور اگلی تاریخ پر دلائل ہوجانے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ دیگر عدالتوں میں یہ ہوتا ہے کہ کسی دستاویز کو پیش کرنے کے لیے تاریخ مل جاتی ہے، سپریم کورٹ میں کوئی کیس آتا ہے تو اس کے سارے کاغذات پورے ہونے چاہئیں۔

انہوں نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دلائل بھی ایک زبان میں دیں، اپنی اردو بہترکریں یا انگریزی، دریں اثنا عدالت نے وکیل کی تاریخ دینے کی استدعا مسترد کردی۔

معذور سرکاری افسر کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد

سپریم کورٹ نے ایک آنکھ سے معذور سرکاری افسر کی تعیناتی کے خلاف درخواست گزار کی استدعا مسترد کردی، جسٹس اعجاز الاحسن نے معذور افسر کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر برہمی کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ محمد ساجد ایک آنکھ سے معذور ہیں اور سب واضح ہے، جب تعیناتی میرٹ پر کی گئی ہے تو مسئلہ کیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل بولے بیان حلفی کے مطابق متاثرہ فریق کو کوئی معذوری نہیں ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی میں بھی تکنیکی غلطی ہو سکتی ہے۔

ریکارڈ کے مطابق انٹرویو بورڈ نے معائنہ کرکے تقرری میرٹ پر کی ہے، معذور افراد کے کوٹے پر اُن کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے، 2 اداروں نے انہیں معذور قرار دیا ہے، دریں اثنا عدالت نے تعیناتی کے خلاف درخواست گزار کی استدعا مسترد کر دی۔

شہری کی تنخواہ ہڑپ کرنے والے ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد

سپریم کورٹ نے شہری کی تنخواہ ہڑپ کرنے والے ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

محکمہ تعلیم کے 2 ملازمین نے اینٹی کرپشن پنجاب میں درج مقدمہ میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی، ملزم عبدالرحمٰن کی ضمانت عدم پیروی پر خارج جبکہ ملزم ابرار کی ضمانت وکلا کے دلائل کے بعد خارج کی گئی۔

عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ ملزم نائب قاصد ابرار نے شہری کو چوکیدار کی نوکری پر سرکاری اسکول میں ملازمت دلوائی، ایک سال تک شہری کی سیلری اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی، سیلری مانگنے پر نائب قاصد ابرار کہتا رہا ابھی آپ کا اکاؤنٹ کھلنا ہے۔

ملزمان نے شہری کو سیلری دلوانے کے بدلے مزید 70 ہزار روپے کی بھی ڈیمانڈ کی، چوکیدار نے بیوی کا زیور بیچ کر ایک لاکھ بھی ملزمان کو دے دیے۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ افسوس کے ساتھ محکمہ تعلیم پنجاب کا یہ حال ہے، ایک تو غریب آدمی کے ساتھ زیادتی ہوئی اوپر سے تنخواہ ہڑپ کرلی گئی اور مزید پیسے لے لیے گئے۔

سپریم کورٹ میں زیرِالتوا مقدمات

خیال رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں تقریباً 57 ہزار کیسز زیر التوا ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں ’لا اینڈ جسٹس کمیشن‘ زیر التوا مقدمات کے اعداد و شمار کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرتا تھا، تاہم سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال (جو کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے چیئرمین بھی تھے) کے دور میں عدلیہ کے بیک لاگ (زیر التوا کیسز) سے متعلق اعداد و شمار ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے تھے۔

اعلیٰ اور زیریں عدالتوں میں زیرالتوا کیسز کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس کی وجہ سے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید نے کہا کہ عدالت عظمیٰ مزید بینچز تشکیل دے کر بیک لاگ کو ختم کر سکتی ہے، اس وقت مقدمات کی سماعت کے لیے 2 یا 3 باقاعدہ بینچز موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی 4 اور کبھی کبھار 5 بینچز بنائے جاچکے ہیں، موجودہ استعداد کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان مقدمات کی سماعت کے لیے 6 باقاعدہ بینچز تشکیل دے سکتے ہیں جس سے بیک لاگ کو کم کیا جاسکے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں بہت اہم وقت سیاسی مقدمات پر ضائع کیا، سیاسی مقدمات ایک دو سماعتوں میں نمٹائے جاسکتے ہیں کیونکہ عدالت عظمیٰ کو قانونی امور کی تشریح کرنی ہوتی ہے، سپریم کورٹ کو سادہ معاملات پر بھی فیصلہ کرنے میں مہینوں لگ گئے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے عدالت عظمیٰ کے معاملات کو ہموار کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں