بینائی متاثر کرنے والے انجکشن کے ٹیسٹ سے ذمہ داروں کا تعین ہوجائے گا، نگران وزیراعلیٰ پنجاب

25 ستمبر 2023
نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی—فوٹو: ڈان نیوز
نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی—فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بینائی متاثر کرنے کا سبب بنے والے مبینہ انجکشن کی فروخت روک دی گئی ہے اور لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ کے بعد ذمہ داروں کا تعین ہوجائے اور معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

پنجاب کے مختلف اضلاع لاہور، قصور اور جھنگ میں ذیابیطس کے متعدد مریضوں کو آنکھوں کے درد کے لیے ایواسٹن کے انجیکشن لگائے گئے لیکن ان کی وجہ سے انہیں شدید انفیکشن ہوا اور ان کی بینائی ختم ہوگئی۔

ذیابیطس کے جن مریضوں کو یہ دوا دی گئی ان میں جان لیوا بیماری، اینڈو فیتھلمائٹس، کے باعث آنکھ کے اندرونی حصے کی سوزش پیدا ہوئی اور یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب ضلع قصور سے دوائی کے رد عمل کے متعدد کیسز رپورٹ ہوئے۔

ڈاکٹروں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے یہ جاننے کے بعد متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ دوا بہت سے ٹرسٹ ہسپتالوں، دیگر صحت کی سہولیات اور مقامی مارکیٹ میں فراہم کی گئی ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ انجکشن کی فروخت روکی ہوئی ہے جب تک لیبارٹری کی رپورٹ نہیں آتی اور رپورٹ 10 سے 12 دن میں آئے گی، اور اس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اصل میں کون ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر واقعے میں ملوث ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا، صرف خبر دینے کے لیے کسی سے ناجائز طور پر زیادتی نہیں کر سکتے، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی اور ذمہ داران کو چھوڑا نہیں جائے گاکسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی ہے اور رپورٹ کے بعد اصل ذمہ داروں کا اندازہ ہوگا اور ان کو سزا دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو انجام تک پہنچائیں گے، پرچے درج کر لیے گئے ہیں، جو میرے بس میں ہے ضرورکیا جائے گا، پوری حکومت متاثرہ مریضوں کے ساتھ ہے۔

نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت پنجاب متاثرہ مریضوں کو سرکاری خرچ پر مفت علاج کی سہولت فراہم کررہی ہے، چند مریض نجی ہسپتالوں میں ہیں،چند گھر چلے گئے اور متاثرہ افراد کوعلاج معالجے کی بہترین خدمات فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔

محسن نقوی نے کہا کہ ہمیں تعین کرنا ہے کہ انجکشن میں مسئلہ تھا، ٹرانسپوٹیشن میں مسئلہ تھایا ٹمپریچر کا مسئلہ تھا، انجکشن لاہور سے بن کر صادق آباد جاتے ہیں، دیکھنا ہے کہ مسئلہ کہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انجکشن کی ٹرانسپورٹیشن کے مسئلے کے ذمہ داران کا تعین ہوچکا ہے، ادویات سے جڑے کچھ معاملات وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرگ انسپکٹرز کی کوتاہی ہے کہ اس نے یہ انجکشن فروخت کیوں ہونے دیا، سارا معاملہ پرائیویٹ ہسپتال میں ہو رہا تھا تو ہیلتھ کیئر کمیشن کہاں تھا، ہیلتھ کیئر کمیشن اور ڈرگ انسپکٹر کو جواب دینا پڑے گا، ہمیں اپنا بھی احتساب کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسران کے تبادلے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، ہمیں ایس اوپیز بہتر بنانے ہوں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 400 ایم ایل کا انجکشن 4 ہزار روپے کا تھا لیکن یہ ہر سرنج میں 40 روپے میں فروخٹ ہو رہا تھا، جس کو انہوں نے غیرقانونی عمل قرار دیا۔

اس سے قبل محکمہ صحت پنجاب نے مبینہ طور پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما چوہدری منظور احمد کے بھائی سمیت ذیابیطس کے متعدد مریضوں کی بینائی متاثر کرنے والے انجیکشن کی تیاری، فروخت اور تقسیم میں کوتاہی پر 12 افسران کو معطل کردیا۔

ایک روز قبل نگران وفاقی وزیر صحت (این ایچ ایس) ڈاکٹر ندیم جان نے پنجاب میں اپنے ہم منصب ڈاکٹر جمال ناصر کے ساتھ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے 5 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے کہ آیا آنکھوں کو پہنچنے والا نقصان کولڈ چین مینجمنٹ، نس بندی کے مسائل یا ڈاکٹر کی غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔

یہ انجیکشن بھی بازار سے واپس منگوا لیا گیا اور بعد ازاں دو ہفتوں کے لیے اس پر پابندی لگا دی گئی۔

تازہ پیش رفت میں پنجاب کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈپارٹمنٹ نے لاہور، جھنگ، بہاولپور، رحیم یار خان، قصور، بہاولنگر، خانیوال اور ملتان میں 12 ڈرگ انسپکٹرز، ڈپٹی ڈرگ کنٹرولرز اور ڈرگ کنٹرولرز کو معطل کر دیا ہے۔

معطل کیے گئے اہلکاروں کو گریڈ 17، 18 اور 19 میں تعینات کیا گیا تھا تاہم انہیں کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر محکمہ صحت میں رپورٹ کریں۔

مینوفیکچررز گرفتار

اتوار کو پنجاب کے محکمہ صحت نے انجیکشن بنانے والوں کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرایا تھا۔

چیف ڈرگ کنٹرولر آفس پنجاب کے ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر حافظ عالم شیر نے اس سے قبل ڈرگ ایکٹ 1976 اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) ایکٹ 2012 کے تحت فیصل ٹاؤن تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

انہوں نے کیس میں کاہنہ کے نوید عبداللہ اور بلال رشید کو نامزد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے ایک نجی ہسپتال کے احاطے میں ’متنازع دوا‘ تیار کی اور پورے صوبے میں سپلائی کی۔

محکمہ صحت کی اعلیٰ سطح کی ٹیم نے نجی ہسپتال میں مینوفیکچرنگ یونٹ پر بھی چھاپہ مارا جہاں سے ادویات ضبط کر کے مزید محکمانہ کارروائی کا آغاز کیا گیا تو حکام کو یہ پتا چلا کہ مالکان ادویات کے قواعد و ضوابط کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی یونٹ چلا رہے ہیں۔

چھاپہ مار ٹیم میں ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر (نشتر ٹاؤن) حسن حیدر شاہ، ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر (مریدکے) بلال یاسین، ڈرگ انسپکٹر (واہگہ ٹاؤن) کمال سکندر، ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر (اقبال ٹاؤن) شیر زمان، ڈرگ انسپکٹر (سمن آباد) رمیز احمد اور ڈرگ انسپکٹر (شرقپور) امان اللہ شامل ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر حافظ عالم شیر نے الزام لگایا کہ چھاپہ مار ٹیم نے نوٹ کیا کہ یونٹ کے ملزمان غیر رجسٹرڈ ادویات غیر قانونی طور پر تیار کر رہے تھے۔

ٹیم نے رپورٹ ڈسٹرکٹ کوالٹی کنٹرول کے سیکریٹری کو بھجوائی، جس میں کہا گیا کہ ملزمان نے ڈرگ رولز کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر رجسٹرڈ ادویات تیار کر کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے پنجاب میں کئی مریضوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں