پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین نے پارٹی قائد نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سابق فوجی جرنیلوں کے احتساب کے حوالے سے ’سخاوت‘ کا مظاہرہ کرکے معاف کرنے، بھول جانے اور آگے بڑھنے کے ’مستقبل کے نقطہ نظر‘ پر عمل کریں۔

خیال رہے کہ لندن میں چار سال گزارنے کے بعد نواز شریف کے 21 اکتوبر کو پاکستان واپس پہنچنے کا اعلان کیا گیا ہے، ان کی آمد میں ایک ماہ رہ گیا ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کے قائد اپنے ’سخت احتساب‘ کے دیرینہ مطالبے کو ترک کرتے نظر نہیں آرہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف سابق جرنیلوں اور ججوں بشمول سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، خفیہ ادارے کے سابق سربراہ فیض حمید، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار پر 2017 میں اقتدار سے بے دخل کرنے کی ’سازش‘ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں۔

سابق فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ ججوں کے بارے میں نواز شریف کے مؤقف میں اچانک تبدیلی پارٹی میں میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے جہاں بہت سے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ایسی جرات مندانہ بات چیت اسٹیبلشمنٹ کے ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں انٹرویو کے دوران اس بارے میں سوال کیے جانے پر سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ آنجہانی نیلسن منڈیلا نے انہیں کہا تھا کہ ایک سیاستدان کی سب سے بڑی خوبی سخاوت ہے، جب انصاف اور انتقام کا معاملہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ معاف کرو، بھول جاؤ اور آگے بڑھو، مستقبل کے بارے میں ایک نقطہ نظر ہونا چاہیے، اگر آپ ماضی میں دیکھتے ہیں تو ہاں احتساب ہونا چاہیے، نواز شریف کا غصہ جائز ہے۔

تاہم انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کو مشورہ دیا کہ وہ آزمائے ہوئے، اور ناکام فارمولے کا انتخاب نہ کریں۔

سینیٹر مشاہد حسین نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی احتسابی کارروائی کے نتائج پر بھی سوال اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ ’انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے تحفظ فراہم کیا، سیکیورٹی فراہم کی اور ہماری اپنی حکومت کے دوران محفوظ راستہ دیا اور آپ بے بس تھے۔‘

ان کا کہنا تھا پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے چیف کی حفاظت کرے گی، چاہے وہ کتنا ہی متنازع کیوں نہ ہو، اسے مکمل فوجی اعزازات دیے جائیں گے، لہٰذا وہ اجازت نہیں دیں گے، اب تک یہ صورتحال نہیں ہے، میں کل کے بارے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کسی باہر والے کو (شہری) اپنے فوجیوں کے ٹرائل کی اجازت دیں گے۔

سینیٹر نے کہا کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور سیاست دان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ قومی اور عوامی مفاد میں کیا ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ اگر آپ اس انتقام کے عمل میں پھنس گئے تو آپ حکومت نہیں کر پائیں گے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو پھر ’فوجی بغاوت ہوگی۔‘

مسلم لیگ (ن) کے رہنما ہی نہیں بلکہ بعض سابق اتحادی بھی نواز شریف سے اپنے مؤقف میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی سے گریز کرے۔

ڈان نیوز پر ایک انٹرویو میں خورشید شاہ نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دونوں سابق فوجی سربراہان کے خلاف کارروائی کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل لگ رہا ہے۔

خورشید شاہ نے سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا کسی نے اس شخص کو کچھ کیا، جس کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا سنائی گئی، بعد میں انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا، اور دبئی منتقل کر دیا گیا، لہٰذا آئیے، اس طرح کے تنازعات میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔

آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر ترین بھی چاہتے ہیں کہ نواز شریف سابق جرنیلوں کے ساتھ دشمنی چھوڑ دیں۔

جہانگیر ترین نے مشورہ دیا تھا کہ نواز شریف کو اپنی سیاست کے لیے کچھ شخصیات، خاص طور پر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور ایک موجودہ سپریم کورٹ کے جج کا نام نہیں لینا چاہیے، جو پاکستان کے مستقبل کے چیف جسٹس بننے والے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں