فلسطین اسرائیل جنگ: تنازع کی جڑ، امن کی کوششیں اور مجوزہ حل

10 اکتوبر 2023
حماس کے حملے کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطین کے درمیان جنگ نے مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر دیا ہے— فوٹو: اے ایف پی
حماس کے حملے کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطین کے درمیان جنگ نے مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر دیا ہے— فوٹو: اے ایف پی

اسرائیلیوں اور فلسطین کے درمیان گزشتہ سات دہائیوں سے جاری جنگ اور تنازعات میں حماس کے حملے کے بعد دونوں فریقین کے درمیان لڑائی تازہ ترین محاذ ہے جس نے بیرونی طاقتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے اور مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔

تنازع کی اصل وجہ کیا ہے؟

یہ تنازع فلسطینیوں کی اپنی ریاست کے قیام کی خواہشات کو تحفظ فراہم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کے خلاف ہے جسے وہ طویل عرصے سے ایک دشمن خطہ تصور کرتا ہے۔

اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بین گوریون نے 14 مئی 1948 کو جدید اسرائیلی ریاست کا اعلان کرتے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کی تھی۔

فلسطینیوں نے اسرائیل کی تخلیق کو نقبہ یا تباہی قرار دیا تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کی ریاست کے قیام کا خواب چکنا چور ہو گیا تھا۔

اس کے بعد ہونے والی جنگ میں برطانیہ کے زیر تسلط فلسطین کی 7لاکھ یا تقریباً نصف عرب آبادی اردن، لبنان اور شام کے ساتھ ساتھ غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔

امریکا کے قریبی اتحادی تصور کیے جانے والے اسرائیلکا دعویٰ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے قیام کے اگلے ہی دن پانچ عرب ریاستوں نے اس پر حملہ کیا تھا، جنگ بندی کے معاہدوں نے 1949 میں لڑائی کو روک دیا تھا لیکن باضابطہ امن قائم نہیں ہو سکا تھا۔

اس کے بعد سے کون سی بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں؟

1967 میں اسرائیل نے مصر اور شام کے خلاف چھ روزہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے پیشگی حملہ کیا تھا، اسرائیل نے تب سے مغربی کنارے، عرب مشرقی یروشلم پر قبضہ کر رکھا ہے، جسے اس نے اردن سے حاصل کیا تھا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر تب سے قبضہ کیا ہوا ہے۔

1973 میں مصر اور شام نے نہر سوئز اور گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ اسرائیلی ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا جس سے یوم کپور جنگ شروع ہوئی، اسرائیل نے تین ہفتوں کے اندر دونوں فوجوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔

اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا تھا اور یاسر عرفات کی قیادت میں ہزاروں فلسطینی جنگجوؤں کو 10 ہفتوں کے محاصرے کے بعد سمندر کے راستے نکال دیا گیا تھا، 2006 میں لبنان میں اس وقت دوبارہ جنگ شروع ہوئی تھی جب حزب اللہ نے دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا تھا اور اسرائیل نے جوابی کارروائی کی۔

2005 میں اسرائیل نے غزہ کو چھوڑ دیا جسے اس نے 1967 کی جنگ کے بعد مصر سے اپنے قبضے میں لیا تھا لیکن غزہ میںے 2006، 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جن میں اسرائیل نے فضائی حملے تھے تو فلسطینیوں کی جانب سے راکٹ فائر کیے گئے تھے۔

جنگوں کے ساتھ ساتھ 1987 سے 1993 اور پھر 2000 سے 2005 کے درمیان فلسطین کی جانب سے دو بڑی کارروائیاں کی گئی تھیں جہاں اس طرح کی دوسری کارروائی میں حماس نے اسرائیلیوں کے خلاف خودکش دھماکے کیے تھے۔

قیام امن کے لیے کیا کوششیں ہوئیں؟

1979 میں مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس سے 30 سالہ دشمنی کا خاتمہ ہوا تھا، 1993 میں اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن اور یاسر عرفات نے فلسطینیوں کی محدود خود مختاری پر اوسلو معاہدے پر اتفاق کیا تھا اور 1994 میں اسرائیل نے اردن کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔

2000 کے کیمپ ڈیوڈ سربراہی اجلاس میں صدر بل کلنٹن، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور یاسر عرفات کسی حتمی امن معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔

2002 میں ایک عرب منصوبے کے تحت اسرائیل کو تمام عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی پیشکش کی گئی تھی جس کے بدلے میں اس نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں لی گئی زمینوں سے مکمل انخلا، فلسطینی ریاست کی تشکیل اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے منصفانہ حل کی پیشکش کی تھی۔

2014 میں واشنگٹن میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے تھے اور اس وقت سے امن کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔

فلسطینیوں نے بعد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ معاملات کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ اس نے دو ریاستی حل کی توثیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے کئی دہائیوں کی امریکی پالیسی کو بدل دیا تھا، سابقہ پالیسی کے تحت امریکا نے ان علاقوں میں فلسطینی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جن پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔

امن کے حوالے سے کوششوں کی اب کیا صورتحال ہے؟

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر سفارتی کوششوں میں مصروف ہے جس میں اولین ترجیح اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔

تازہ ترین جنگ سفارتی طور پر سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ان دیگر عرب ریاستوں کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کے اہم مسائل کیا ہیں؟

دو ریاستی حل، اسرائیلی بستیاں، یروشلم کی حیثیت اور پناہ گزین اس تنازع کا مرکز ہیں۔

دو ریاستی حل: ایک ایسا معاہدہ جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست بنائے گا، حماس نے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کو تباہی کرنے کا عزم کیا ہے لیکن اسرائیل کہنا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو عسکری صلاحیت سے محروم کرنا چاہتا ہے تاکہ اسرائیل کو خطرہ نہ ہو۔

یہودی بستیاں: زیادہ تر ممالک 1967 میں اسرائیل کے زیر قبضہ زمین پر تعمیر کی گئی یہودی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے اور اس زمین سے اپنے تاریخی روابط کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے مقدس کتابوں کا بھی حوالہ دیتا ہے، ان کی مسلسل توسیع اسرائیل، فلسطینیوں اور عالمی برادری کے درمیان سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک ہے۔

یروشلم: فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات شامل ہیں، کو ان کی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یروشلم کو اس کا ناقابل تقسیم اور ابدی دارالحکومت رہنا چاہیے۔

یروشلم کے مشرقی حصے پر اسرائیل کے دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا البتہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دیا گیا تھا۔

پناہ گزین: آج تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین اردن، لبنان، شام، اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں رہتے ہیں، فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے نصف بے وطن ہیں، بہت سے لوگ پرہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔

فلسطینیوں کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ پناہ گزینوں کو ان کی لاکھوں اولادوں کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دی جائے، اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی کوئی بھی آباد کاری اس کی سرحدوں سے باہر ہونی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں