فلسطین کے معاملے پر سعودی عرب قیادت کرتا ہے تو زبردست اثرات مرتب ہوں گے، ملائیشین وزیراعظم

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2023
ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے بیان کو جذبات کا عکاس اور بروقت قرار دینا ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہو گی — فائل فوٹو: رائٹرز
ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے بیان کو جذبات کا عکاس اور بروقت قرار دینا ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہو گی — فائل فوٹو: رائٹرز

ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے عالمی سطح پر سعودی عرب کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فلسطین کے معاملے پر سعودی عرب قیادت کرتا ہے تو اس کے زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔

عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ غزہ میں پیدا ہونے والی صورتحال کو پاگل پن قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دنیا مغربی قیادت کی منافقت سے آنکھیں بند نہ کرے کیونکہ وہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے اور یہ حملہ یوکرین پر روسی جارحیت کے مترادف ہے۔

ریاض میں جی سی سی ایشین کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انور ابراہیم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع نے بین الاقوامی سیاست کے تضادات اور منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے، ایک طرف انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب انہی حقوق سے انکار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر یہ روس کی جانب سے یوکرین میں روسی انکلیو کو لینے کے فیصلے کو جارحیت قرار دے کر روس کی مذمت کی جاتی ہے، لیکن فلسطینیوں کی جائز زمینوں پر قبضے اور اسرائیلی جارحیت کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جارحیت کی حمایت اور اس کا دفاع کیا جاتا ہے، ہمیں بیدار ہونا چاہیے اور اس منافقت کو دیکھنا چاہیے جو مزید جاری نہیں رہ سکتی۔

جی سی سی ایشین کے سربراہی اجلاس میں اپنے افتتاحی خطاب میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ آج جب ہم یہاں جمع ہو رہے ہیں تو ہمیں غزہ میں بڑھتے ہوئے تشدد پر دکھ ہے، جس کی قیمت معصوم شہری ادا کر رہے ہیں۔

ولی عہد نے شہریوں کے خلاف فوجی آپریشن بند کرنے، استحکام کے قیام اور ایسے دیرپا امن کے حصول کے لیے حالات پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو 1967 کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کے منصفانہ حل تک پہنچنا یقینی بناتا ہے۔

انور ابراہیم نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے بیان کو جذبات کا عکاس اور بروقت قرار دینا ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہو گی، ایک عرب رہنما کے لیے غزہ کے بحران پر نہ صرف ایک مضبوط موقف اختیار کرنا ضروری ہے بلکہ انہیں انسانی بنیادوں پر بھی یہی موقف اختیار کرنا چاہیے۔

سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم آپ کے اور جی سی سی کے ساتھ ہیں کیونکہ آپ جو کچھ دیکھتے ہیں، اور جب آپ قیادت کریں گے تو اس کے زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔

انور ابراہیم نے کہا کہ اس لڑائی کے خاتمے اور وسیع تر جنگ کو روکنے کی کوششوں میں ملائیشیا، سعودی عرب اور جی سی سی کے ساتھ ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت اجلاس میں شریک تمام رہنماؤں نے اپنے بیان میں تنازع میں شامل تمام فریقین سے ایک مستقل جنگ بندی پر عمل درآمد اور غزہ کی شہری آبادی کے خلاف حملوں کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے بین الاقوامی انسانی قانون بالخصوص جنگ کے وقت شہری افراد کے تحفظ سے متعلق جنیوا کنونشن کے اصولوں اور شقوں پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا جبکہ غزہ کو انسانی امداد، امدادی سامان اور دیگر ضروری سامان اور سروسز کی فراہمی پر بھی زور دیا۔

اجلاس کے شرکا نے یرغمال افراد اور نظر بند شہریوں بالخصوص خواتین، بچوں، بیمار افراد اور بوڑھوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی پر زور دیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم نے تمام اقوام پر زور دیا کہ وہ ایک دیرپا اور منصفانہ حل کی تلاش کے لیے اکٹھے ہو جائیں تاکہ اسے بدترین انسانی بحران بننے سے روکا جا سکے، بصورت دیگر یہ عالمی تنازع کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کی زمینیں، گھر اور جائیدادیں واپس کی جانی چاہئیں، انہیں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں میں اپنی خود مختار ریاست میں امن اور وقار کے ساتھ رہنے کی اجازت ہونی چاہیے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں