سینیٹ اجلاس بالآخر رواں ہفتے بلانے کا فیصلہ، غزہ کی صورتحال پربحث کی جائے گی

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2023
سینیٹ سیکریٹریٹ نے سیشن کے حوالے سے ایک متنازع اعلان کیا — فائل فوٹو: ٹوئٹر این اے
سینیٹ سیکریٹریٹ نے سیشن کے حوالے سے ایک متنازع اعلان کیا — فائل فوٹو: ٹوئٹر این اے

نگران سیٹ اپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بالآخر پہلی بار پارلیمان کے ایوان بالا کا اجلاس رواں ہفتے بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں غزہ کی صورتحال پر بحث کی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان پیپلزپارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور کچھ دیگر جماعتوں کی حمایت سے سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے 44 دستخطوں پر مشتمل ایک ریکوزیشن جمع کرانے کے 3 روز بعد سامنے آیا ہے۔

تاہم مسئلہ فلسطین کی اہمیت کے باوجود سینیٹ سیکریٹریٹ نے گزشتہ روز سیشن کے حوالے سے ایک متنازع اعلان کیا۔

سیکریٹریٹ نے اس ریکوزیشن کا ذکر نہیں کیا جو چیئرمین سینیٹ کی جانب سے اجلاس بلانے کے فیصلے کی بنیاد ہوتی ہے بلکہ اُن 2 خطوط کا حوالہ دیا جو کہ مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی طرف سے لکھے گئے تھے حالانکہ اُن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد فلسطین کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بات کرنے کے لیے رواں ہفتے سینیٹ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

جن جماعتوں نے ریکوزیشن پر دستخط نہیں کیے تھے اُن میں مسلم لیگ (ن)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔

سینیٹ سیکریٹریٹ نے اِس اعلان میں قائد ایوان اسحٰق ڈار اور بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر منظور کاکڑ کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو لکھے گئے خطوط کا ذکر کیا، جس میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ سینیٹ کا اجلاس بلائیں تاکہ فلسطین کی صورتحال پر بحث اور غور کیا جا سکے۔

پیپلزپارٹی کے ایک قانون ساز نے اس حوالے سے رابطہ کیے جانے پر سینیٹر اسحٰق ڈار کی طرف سے چیئرمین سینیٹ کو خط لکھنے پر تنقید کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ وہ ریکوزیشن کے بغیر اجلاس نہیں بلوا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ سینیٹ کے اجلاس کے بارے میں اتنے سنجیدہ تھے تو انہیں وزیراعظم کو خط لکھنا چاہیے تھا تاکہ صدر کو سینیٹ اجلاس بلانے کی ایڈوائس دی جائے، یہ خط ’فیس سیونگ‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

سینیٹ کا آخری اجلاس 9 اگست کو ہوا تھا، پیپلز پارٹی کی جانب سے ستمبر میں سینیٹ کا اجلاس بلوانے کی 2 کوششیں کی گئیں لیکن دونوں بار متنازع طور پر اس کی ریکوزیشنز کو مسترد کر دیا گیا۔

سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے باضابطہ ریکوزیشن کے بجائے اسحٰق ڈار اور منظور کاکڑ کی طرف سے لکھے گئے خطوط کا حوالہ دیے جانے پر حیرت کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی نے بھی ریکوزیشن پر دستخط نہیں کیے تھے، چیئرمین سینیٹ ایسے خطوط کی بنیاد پر اجلاس نہیں بلوا سکتے۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری’گمراہ کن’ اعلامیے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ چیئرمین صرف ریکوزیشن کی بنیاد پر ہی اجلاس طلب کر سکتے ہیں، جس پر 44 سینیٹرز نے دستخط کیے ہیں، سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے حکومت کے پاس یہی واحد راستہ ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں