پاکستان مخالف فلموں کا چلن بولی ووڈ میں نیا نہیں۔ یہ وہ سودا ہے جو ہمیشہ اپنے جذباتی گاہک تلاش کرلیتا ہے مگر گزشتہ چند برسوں میں اس رجحان نے ایک دیوانگی کی شکل اختیار کرلی ہے جس کے باعث بولی ووڈ کا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔

اگرچہ یش چوپڑا سے راج کمار ہیرانی تک، ایسے کئی باکمال ہدایت کار آئے جنہوں نے بولی ووڈ میں نفرت کا پرچار کرنے کے بجائے مثبت اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی مگر بارڈر اور غدر جیسی پاکستان مخالف فلموں کی ریکارڈ کامیابی نے ہمیشہ بھارتی فلم سازوں کو پروپیگنڈا فلمز بنانے کی تحریک دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان مخالف بیشتر فلموں نے کمزور اسکرپٹ اور ناقص پروڈکشن کوالٹی کے باوجود ناقدین اور ناظرین، دونوں ہی کی جانب سے داد وصول کی۔

ماضی کے اوراق پلٹیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تقسیم کے وقت بھارتی فلم انڈسٹری میں جو ترقی پسند سوچ، وضع داری اور مذاہب کے احترام کا کلچر تھا، وہ وقت کے ساتھ ساتھ رخصت ہوتا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے عہد اقتدار کے بعد مذہبی انتہاپسندی اور قوم پرستی بڑھنے لگی۔ نیا زمانہ اپنے ساتھ نئے مطالبات لایا۔ رام مندر تحریک نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح بولی ووڈ کو بھی متاثر کیا۔ فلموں میں مسلم کرداروں کو پیش کرنے کا رنگ ڈھنگ بدل گیا اور پاکستان مخالف فلموں میں تیزی آنے لگی۔

بولی ووڈ میں پاکستان مخالف فلمیں بلاک بسٹر قرار پا رہی ہیں
بولی ووڈ میں پاکستان مخالف فلمیں بلاک بسٹر قرار پا رہی ہیں

گو کہ کانگریس نے بھی بولی ووڈ کے پلیٹ فارم کو کسی حد تک پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا مگر بی جے پی سرکار آنے کے بعد اس عمل نے ایک آرٹ کی شکل اختیار کرلی جس میں ’گودی میڈیا‘ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ یہ اس دور ہی کا کمال تھا کہ ’اوڑی‘، ’دی کشمیر فائلز‘ اور ’دی کیرالا اسٹوری‘ جیسی فلمیں بلاک بسٹر قرار پائیں۔ قوم پرستی اور پاکستان مخالفت کی تازہ لہر نے سنی دیول کے دم توڑ چکے کریئر میں ایسی روح پھونک دی کہ وہ ’غدر 2’ کا زینہ لگا کر سیدھے 500 کروڑ کلب میں جا پہنچے۔ سنی دیول کے مخصوص رنگ میں رنگی اس فلم کی کامیابی کے بعد ’بارڈر ٹو‘ سمیت دیگر پاکستان مخالف فلمز کے پروجیکٹ بھی زیرِغور ہیں۔

اس مضمون میں ایسی ہی چند فلموں کی کہانی، کردار اور ٹریلرز کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جن کے شاطر پروڈیوسرز 2023ء میں پاکستان مخالفت کا سودا بیچ کر اپنی دکان چمکانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ٹائیگر 3

بے شک فلم سازی ایک کاروبار ہے اور ہر فلم ساز ایسی فلم بنانے کو ترجیح دیتا ہے جس سے وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکے لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یش راج بینر نے ہمیشہ روایتی سنیما میں نئی طرح ڈالنے کی کوشش کی۔ چاہے یش چوپڑا کی فلم ’چاندی‘ ہو یا ادیتیہ چوپڑا کی ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، اس بینر کی فلموں پر محبت کا رنگ غالب رہا اور جب اس بینر نے ’ویر زارا‘ جیسی سیاسی فلمیں بنائیں، تب بھی پاکستان مخالف عنصر کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کی۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ بدلتے حالات کے باعث اب یش راج بینر بھی روایتی رنگ میں رنگنے لگا ہے۔

سلمان خان کی ’ٹائیگر‘ اس پروڈوکشن ہاؤس کی مقبول ترین فرنچائز ہے جس کی تیسری فلم نومبر کے وسط میں ریلیز ہونے جارہی ہے۔ اس فلم میں دیش بھگتی کے ساتھ پاکستان دشمنی کا خوب تڑکا لگایا گیا ہے۔

ٹائیگر 3 کا ٹریلر اور میڈیا رپورٹس یہ اشارہ کرتی ہیں کہ فلم کے ایک حصے میں بھارتی خفیہ ایجنٹس کو پاکستانی سرزمین پر سرگرم دکھایا جائے گا۔ اسی حصے میں کروڑوں کی لاگت سے شوٹ ہونے والا جیل سے فرار اختیار کرنے کا وہ سین بھی شامل ہے جس میں سلمان خان اور شاہ رخ خان ساتھ نظر آئیں گے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس منظر میں ایک بار پھر بھارتی خفیہ ایجنٹس کو حیرت انگیز اور محیرالعقول مہارتوں کا حامل دکھایا جائے گا۔ ایسے مناظر پر جذباتی بھارتی ناظرین تو تالیاں بجا سکتے ہیں مگر سنجیدہ فلم بین شاید صرف اپنا سر پیٹ سکتے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ ٹائیگر ہو یا پٹھان، دونوں فلموں کی ہیروئنز کو پاکستانی خفیہ ادارے کی ایجنٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس پیش کش میں ایک جانب مردانہ بالادستی کی ترویج نظر آتی ہے وہیں پاکستانی ایجنٹس کو اپنے ملک کی پالیسیوں کے خلاف جاتے ہوئے بھی دکھا گیا ہے۔ الغرض ٹائیگر تھری میں بھی بی جے پی حامیوں کی تسکین کا خاصا سامان ہوگا۔

سیم بہادر

یکم دسمبر کو ریلیز ہونے والے وکی کوشل کی فلم ’سیم بہادر‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس فلم کے پیچھے مودی جی کی یہی سوچ کارفرما ہے کہ بھارتی سنیما مغل یا دیگر مسلم کرداروں پر فلمیں بنانے کے بجائے ہندو کرداروں کو ’گلوریفائی‘ کرے۔

اگرچہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس عمل میں حقائق کو مسخ کرنا آرٹ کے منافی ہے اور اس عمل کی افسوس ناک جھلکیاں ہم ’پدماوت‘ اور ’پانی پت‘ سمیت کئی فلموں میں دیکھ چکے ہیں۔ خود وکی کوشل بھی ’اوڑی: دی سرجیکل اسٹرائیک‘ جیسی پاکستان مخالف پروپیگنڈا فلم کا حصہ بن چکے ہیں جس نے توقع کے عین مطابق ساڑھے 300 کروڑ کا ریکارڈ بزنس کیا تھا۔

اس بار وکی ہمیں بھارتی فوج کے سابق سربراہ مانک شا کے روپ میں دکھائی دیں گے۔ اپنی سرکار سے فیلڈ مارشل کا خطاب پانے والے مانک شاہ کو بھارت میں 1971ء جنگ کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کے خلاف محاذ گرم کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں اپنا کردار نبھایا۔

گو یہ ایک بائیو پک ہے مگر فلم کے ٹریلر میں 1971ء کے سیاسی و جغرافیائی حالات اور صورتحال کا واضح حوالہ موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وکی کوشل ایک بار پھر اینٹی پاکستان فلم کے طفیل خبروں میں آنے والے ہیں۔

تیجس

27 اکتوبر کو ریلیز ہونے والی کنگنا رناوت کی فلم ’تیجس‘ ایک خاتون ایئر فورس پائلٹ کی کہانی بیان کرتی ہے۔ بولی ووڈ پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار باخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ چند برس میں کنگنا رناوت نریندر مودی اور بی جے پی کی غیرسرکاری ترجمان کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ جبر کے اس دور میں ایک جانب جہاں شاہ رخ اور عامر خان نے خاموشی کا راستہ اختیار کیا وہیں کچھ فن کار مودی سرکار کے حامی کے طور پر ابھرے۔ انوپم کھیر، پریش راول اور اکشے کمار سمیت کئی اہم نام اس فہرست میں شامل ہیں۔

البتہ کنگنا نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے براہِ راست شدت پسندی اور قوم پرستی کی راہ چنی۔ اداکارہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے حب الوطنی کے شدت پسندانہ اظہار کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت پر مبنی بیانات بھی داغے، جنہوں نے کافی حد تک فساد کو جنم دیا۔

ان کی حالیہ فلم ’تیجس‘ بھی پاکستان مخالف رنگ میں رنگی ہے۔ فلم ایک بھارتی جاسوس کی رہائی کے لیے پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود میں کیے جانے والے ایک آپریشن کی مبالغہ آمیز کہانی بیان کرتی ہے۔ فلم میں حسب روایت حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ تیجس میں کنگنا کا جذباتی ڈائیلاگ ’ضروری نہیں ہے ہر بار بات چیت ہونی چاہیے، جنگ کے میدان میں اب جنگ ہونی چاہیے۔‘ اس پراجیکٹ کے منفی مقاصد کی باخوبی عکاسی کرتا ہے۔

یہ فلم ’اوڑی: دی سرجیکل اسٹرائیک‘ ہی کے پروڈیوسرز کی پیشکش ہے جنہوں ایک بار پھر پاکستان کی حدود میں داخل ہوکر آپریشن کرنے کی گھسی پٹی کہانی کو نئے پیکٹ میں ایک خاتون پائلٹ کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

حرف آخر

یہ فلمیں بولی ووڈ میں پائی جانے والی پاکستان مخالف سوچ کی حالیہ مثالیں ہیں، جو اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ایٹلی کمار کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ٹھہرائی جانے والی فلم ’جوان‘ تن تنہا اس منفی رجحان کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے فنکاروں کی ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے جس کا فی الحال دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مستقبل میں بی جے پی مخالف جماعتیں اقتدار میں آبھی گئیں تب بھی اس رجحان سے فوری نجات حاصل کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ اور کیا خبر نئی سرکار بھی بی جے پی کی طرح بولی ووڈ کو اپنی سوچ کی ترویج کا آلہ کار بنا لے۔

تبصرے (0) بند ہیں