ممتاز ہدایت کار کرسٹوفر نولن کی فلم ’اوپن ہائیمر‘ ایٹم بم کی ایجاد کے تاریخی واقعے کا احاطہ کرتی ہے۔ ایک مرحلے پر فلم میں اوپن ہائیمر سمیت تمام سائنس دان اس اندیشے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اگر ایٹمی تجربے سے ایٹمی دھماکوں کا چین ری ایکشن شروع ہوگیا، تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی اور سیارہ زمین تباہ ہوجائے گا۔

اوپن ہائیمر نے تو اس تباہ کن چین ری ایکشن کو روک دیا، مگر بھارت میں گجرات فسادات کے دھماکے سے نفرت کے جس چین ری ایکشن کا آغاز ہوا تھا، وہ اتنا شدید تھا کہ بھارتی روشن خیال حلقے اور مستحکم جمہوری نظام بھی اسے روکنے میں ناکام رہا۔ گجرات کے قصائی کا لقب پانے والے نریندر مودی وزیر اعظم بن گئے، ملک میں ہندوتوا نے سر اٹھایا اور اقلیتوں کے لیے زمین تنگ ہونے لگی۔

اس انتہاپسند اور قوم پرست سوچ نے بھارت کے سیکولر تشخص کو گہنا دیا۔ اس کا اثر اتنا بڑھا کہ کھیل، ثقافت یہاں تک کہ فلم جیسے شعبے بھی اسی کے زیر اثر آگئے اور شدت پسند جماعت آر آیس آیس کا ملک بھر گیروا پرچم لہرانے کا خواب حقیقت بننے لگا۔

نفرت کی موجودہ لہر اتنی شدید ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی جیسی سیکولر جماعتیں بھی رائج انتہاپسند بیانیے کے خلاف جانے سے کتراتی ہیں۔ ادھر فن کی نمائندگی کرنے والے سب سے بڑے پلیٹ فارم بولی وڈ نے اس انتہاپسند سوچ کو نہ صرف اپنا لیا، بلکہ اپنا نمایاں ترین وصف (یونیک سیلنگ پوائنٹ) بھی بنا لیا ہے۔

اس کی مثال ہم ’دی کشمیر فائلز‘ اور ’کیرالا اسٹوری‘ جیسی اوسط درجے کی فلمز کو ملنے والی حیران کن کامیابیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’غدر ٹو اس کی تازہ کڑی ثابت ہوسکتی ہے، جس نے ایک مردہ گھوڑے میں جان پھونک دی ہے۔

یہ فلم 22 سال قبل جون 2001ء میں ریلیز ہنے والی انیل شرما کی فلم ’غدر: ایک پریم کتھا‘ کا سیکوئیل ہے۔ تب 19 کروڑ کی لاگت سے بننے والی یہ فلم عامر خان کی شہرہ آفاق فلم ’لگان‘ کے ساتھ ریلیز ہوئی تھی۔ اگرچہ اسے ناقدین کی جانب سے منفی ردعمل ملا مگر پاکستان اور مسلمان مخالف سوچ نے اسے بلاک بسٹر بنا دیا۔ اشوتوش گواریكر کی ’لگان‘ نے آسکر تک رسائی ضرور حاصل کی مگر باکس آفس پر وہ غدر کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ لگان 65 کروڑ اپنے نام کرسکی، جب کہ ’غدر‘ نے 120 کروڑ کا ناقابل یقین بزنس کرکے متعدد ریکارڈز کو پاش پاش کر دیا۔

’غدر: ایک پریم کتھا‘ ایک ایسی فلم تھی جس میں پاکستان مخالف جذبات اور اینٹی مسلم پروپیگنڈے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ فلم کا آغاز تقسیم کے بعد مغربی پنجاب (موجودہ پاکستان) میں مسلمانوں کے ہاتھوں سکھ اور ہندو مہاجرین پر ڈھائے جانے والے مظالم سے ہوتا ہے، ان ہی واقعات میں پاکستان سے امرتسر جانے والی ٹرین میں سوار تارا سنگھ (سنی دیول) کے اہل خانہ بلوائیوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

جب ٹرین ہندوستان پہنچتی ہے تو انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ البتہ اس موقع پر امرتسر میں موجود تارا سنگھ اپنے خاندان سے بچھڑ جانے والی ایک مسلمان لڑکی سکینہ (امیشا پٹیل) کی حفاظت کا عزم کرتا ہے۔ وہ سکینہ کو پہلے سے جانتا ہے اور سکھ حملہ آوروں سے بچانے کے لیے اس کی مانگ میں سیندور بھر دیتا ہے اور اپنے گھر لے جاتا ہے۔ بعد ازاں دونوں کی شادی ہوئی جاتی ہے، اور ان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے۔

   غدر: ایک پریم کتھا کا پوسٹر
غدر: ایک پریم کتھا کا پوسٹر

کہانی میں ٹوئسٹ تب آتا ہے، جب سیکنہ کو علم ہوتا ہے کہ اس کا خاندان زندہ ہے اور اس کے باپ (امریش پوری) نے نئی ریاست میں سیاسی شناخت حاصل کر لی ہے۔ وہ اپنے خاندان سے ملنے پاکستان آتی ہے۔ یہیں سے فلم میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا اپنے عروج پرپہنچ جاتا ہے۔ فلم کے اس حصے میں تارا سنگھ کو ایک پرامن، مصلحت پسند، مگر محب وطن ہندوستانی کے روپ میں دکھایا گیا ہے، جو سکینہ کے خاندان کی سخت سے سخت شرط ماننے کو تیار ہے، مگر جب اس سے ’بھارت مردہ باد‘ کہنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو وہ آگ بگولا ہوجاتا ہے۔ فلم میں تارا سنگھ ایک سپر ہیرو کے روپ میں پیش کیا گیا تھا، جو اکیلا سیکڑوں پر بھاری ہے۔ اس مبالغہ آرائی کو بھارتی ناظرین نے خوب سراہا اور فلم کو بلاک بسٹر بنا دیا۔

اس فلم کے بعد کچھ عرصے تو سنی دیول مرکزی دھارے کے سنیما کا حصہ رہے، مگر دھیرے دھیرے ان کا اسٹارڈم ختم ہونے لگا اور وہ پس منظر میں چلے گئے، دوسری طرف خانز نے باکس آفس پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ پاکستان مخالف فلمز کا رجحان کم ہوا، پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کیا جانے لگا اور ’ویرزارا‘ جیسی فلمز کی پذیرائی ہونے لگی۔ (دل چسپ امر یہ ہے کہ غدر اور ویر زارا دونوں ہی فلمز برٹش آرمی کے ایک سکھ سپاہی بوٹا سنگھ کی کہانی سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہیں، مگر دونوں کے بینادی نظریے میں زمین آسمان کا فرق تھا)۔

مودی جی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جہاں دیگر شعبوں میں آر آیس آیس کے انتہاپسند اور قوم پرست نظریے کو فروغ دیا، وہیں اسے بالی وڈ میں بھی داخل کر دیا۔ خانز کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ ایک بار پھر پاکستان مخالف فلمز کا رجحان زور پکڑنے لگا۔ قوم پرستی پر مبنی پروپیگنڈا بڑھنے لگا۔ ہندو متھالوجی کا رنگ غالب آیا اور ہندو تاریخی کرداروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا۔

اس عمل کے دوران تاریخ کو بری طرح مسخ کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی ہو یا علا الدین خلجی، مودی دور کے بالی وڈ میں مسلم کرداروں کو ظالم، بدتہذیب اور گنوار بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ وہ ٹیپو سلطان، جسے کل تک انگریز راج کے خلاف جدوجہد کا استعارہ تصور کیا جاتا تھا، اسے آج کے ہندوستان میں ایک جابر سلطان کے روپ میں پیش کرنے کا بھی اہتمام ہوچکا ہے۔ سومناتھ پر فلم کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس ڈیولپمنٹ کا محرک دی کشمیر فائلز اور کیرالا اسٹوری کی کامیابیاں بنیں اور اگر ٹرینڈز کا غیرجانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو اگست کے وسط میں ریلیز ہونے والی غدر ٹو بھی ایک بلاک بسٹر ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ ٹرینڈز اسی وقت واضح ہوگئے تھے، جب کل غدر ٹو کا ٹریلر ریلیز ہوا۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، 2 کروڑ 10 لاکھ مرتبہ یوٹیوب پر یہ ٹریلر دیکھا جاچکا ہے۔ بھارتی ناقدین اس پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور اسے ایک متوقع بلاک بسٹر ٹھہرا رہے ہیں۔

اس 3 منٹ کے ٹریلر کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فلم 1971ء کے پس منظر میں ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا ماحول ہے، تارا سنگھ اور سکینہ کی اولاد جوان ہوگئی ہے۔ تارا سنگھ کا بیٹا جیت، جو بہ ظاہر فوجی ہے، پاکستان سیکیورٹی فورسز کے قبضے میں آجاتا ہے، جس کی خبر ملنے پر تارا سنگھ ون مین آرمی کے روپ میں اسے بچانے لاہور پہنچ جاتا ہے، یعنی کہانی اسی مبالغہ آرائی سے شروع ہوتی ہے، جہاں 22 سال پہلے ختم ہوئی تھی۔

ٹریلر کے لیے جو ڈائیلاگ منتخب کیے گئے ہیں، وہ سطحی اور نفرت میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ ایک جگہ تارا سنگھ کا بیٹا پاکستانی سیکیورٹی افسر سے کہتا ہے،’نماز میں اللہ سے دعا کرنا کہ میرا باپ یہاں نہ آئے، کیوں کہ اگر وہ یہاں آگیا، تو تیرے اتنے چیتھڑے کرے گا، اتنے چیتھڑے کرے گا کہ پورا پاکستان بھی نہیں گن پائے گا‘۔

یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے، جب تارا سنگھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر یہاں (پاکستان)ٰ کے لوگوں کو ہندوستان میں دوبارہ بسنے کا موقع ملے، تو آدھے سے زیادہ پاکستان خالی ہوجائے۔

فلم کے پروڈیوسرز اور سنی دیول خود بھی جانتے ہیں یہ پلاٹ اور یہ کردار بچگانہ ہیں، مگر انہیں علم ہے کہ ایسی جملے بازی سے تھیٹر بھر جائیں گے اور 15 اگست کے موقع پر، حکومتی سرپرستی میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوگی۔

بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ غدر ٹو کی صورت نفرت ایک بار پھر جیت جائے گی اور سنی دیول، جن کا کیرئیر ختم ہوگیا تھا، ایک اور بلاک بسٹر کے ساتھ مرکزی دھارے میں پلٹ آئیں گے۔ گو ان کی یہ اننگز بہت مختصر ثابت ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں