لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے بطور ایڈجنٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے بطور ایڈجنٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہمیشہ سے پیچیدہ تعلقات رہے ہیں جسے دونوں ممالک نے ہی غلط انداز سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں نے ہی دوسرے سے یہ توقع کی ہے اس کی پالیسیوں کی ناکامی کی تلافی دوسرا ملک کرے گا۔

یہاں مسائل کے ایسے حل تلاش کیے گئے جو مسئلے سے بھی زیادہ بدتر تھے۔ پھر یہاں ایک دوسرے کے دشمنوں سے بھی دوستی کی گئی۔ پاکستان کو ان تعلقات کے حوالے سے ایک ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے جو دونوں ممالک کی سلامتی، اقتصادی مستقبل اور سیاسی استحکام کے لیے اہم ہوں۔

پاکستان اور افغانستان مشترکہ لیکن متنازع تاریخ، ایک دوسرے سے ملتی جلتی شناختیں، متنازع سرحد اور منقسم قبائل رکھتے ہیں۔ یہ چیزیں ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک بیرونی طاقتوں پر بھی منحصر رہے ہیں، ان کے تزویراتی مفادات کے ماتحت رہے اور ان کی جنگوں کا شکار بنے۔ یہ وہ عوامل تھے جنہوں ان دونوں ممالک کی مقامی حرکیات پر منفی اثر ڈالا۔

یہ بات پاکستانیوں کو سوچ میں مبتلا کردیتی ہے کہ انہوں نے افغانوں کے لیے جو کچھ کیا اس کے لیے افغان ان کے شکر گزار نہیں ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ افغانستان سوویت قبضے سے آزاد ہوا اور اس کے بعد، ایک سابق وزیر اعظم کے مطابق، اس نے ’غلامی کی زنجیروں‘ کو توڑ دیا ان زنجیروں نے افغانستان کو ایک اور سپر پاور کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔ افغانوں کے ’آزاد‘ ہونے میں پاکستان نے ایک بار نہیں بلکہ دو مرتبہ ان کی مدد کی لیکن افغانوں کو اس سے کیا ملا؟ اس کا جواب ہے طالبان۔

قوم پرستی، مذہبی انتہا پسندی، امریکا دشمنی اور سیاسی موقع پرستی کی عینک سے دیکھنے کے علاوہ طالبان کو کوئی آزادی دہندہ نہیں کہہ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانوں کو قیدیوں جیسی پابندیوں کا سامنا ہے۔ صرف خواتین کے ساتھ سلوک کو دیکھا جائے تو وہ انسانیت کے خلاف جرم کے ضمرے میں آتا ہے۔

کچھ پاکستانیوں کے خیال کے برعکس، افغان طالبان کی لڑائی افغانوں کے لیے نہیں تھی بلکہ ان کے اپنے اقتدار اور نظریے کے لیے تھی جو افغانوں کے درمیان نہیں بلکہ افغانوں اور طالبان کے درمیان اختلاف سے پیدا ہوا تھا۔

یہ سچ ہے کہ طالبان دیہی علاقوں کے غریب طبقے میں اپنے حامی رکھتے تھے، خاص طور پر پختون علاقوں میں ان کے حامی موجود تھے، بالکل ویسے ہی جیسے کہ انتہا پسند مذہبی عناصر پاکستان کے کم آمدنی والے گروہوں میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا جمہوریت اور ترقی کی خواہش رکھنے والی ہماری پڑھی لکھی آبادی ان عناصر کا اقتدار میں آنا پسند کرے گی؟ اسی طرح افغانستان کے پڑھے لکھے عوام طالبان کی حمایت کیوں کریں گے؟ کیا وہ اسی چیز کے حقدار ہیں؟

زیادہ تر افغانوں کے لیے یہ بات اہم تھی کہ طالبان کی واپسی سے پہلے کے 20 سالوں میں، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بہتری آئی، خواتین کے حقوق بشمول کام کے مواقع میں اضافہ ہوا اور شہریوں کو سیاسی آزادی کا تجربہ ہوا۔

ہاں اشرافیہ ضرور بدعنوان تھی اور افغانستان کی ناکامی کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار بھی تھی لیکن طالبان اس کا متبادل نہیں تھے۔ نہ ہی طالبان کو مکمل طور پر افغان مظہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ صرف اس بات کو تسلیم کرنے اور اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنے سے ہی پاکستان، طالبان کے چیلنج کے حقیقی اثرات کو سمجھ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اینالیٹیکل سپورٹ اینڈ سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم نے طالبان کی لڑائی میں مدد کرنے والے کئی گروپوں کو شناخت کیا ہے۔ اب ایک بار پھر یہ گروپ افغانستان میں ملنے والے تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جیسا کہ وہ 2001ء سے پہلے کرتے تھے۔ طالبان اور ان کے ان ’ایمانی بھائیوں‘ جن میں ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستانی عسکریت پسند گروپ شامل ہیں، کے درمیان گٹھ جوڑ پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے خطرات کی بنیاد ہے۔

ہم طالبان کو ان کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ یہ خود طالبان میں انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔ وہ پہلے ہی اپنے مخالف گروہوں سے لڑرہے ہیں جن میں نیشنل ریزسٹنس فرنٹ اور داعش خراسان جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہ شامل ہیں۔ ہماری طرف سے کوئی بھی فوجی کارروائی یا معاشی دباؤ افغانستان میں مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

طالبان افغانستان کو کنٹرول کرنے کے قابل تو ہوسکتے ہیں لیکن افغانستان پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتے، اور استحکام لانا تو بہت دور کی بات ہے۔ افغانستان کی فالٹ لائنز، مسابقتی جغرافیائی اور علاقائی سیاست اور اس کے تنازعات کا شکار اندرونی حالات کے پیش نظر افغانوں اور عالمی برادری کی کوششوں کے بغیر افغانستان مستحکم نہیں ہوسکتا۔ طالبان کے دور میں ایسا نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ چین کا معاشی کردار بھی محدود ہی رہے گا۔

تو اب کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان افغانستان میں استحکام نہیں لا سکتا۔ یہ کام صرف افغان ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کو وہاں عدم استحکام سے بچنے کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشن ایک اچھا قدم ہے۔ تاہم زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان داخلی طور پر کیا اقدامات کرتا ہے۔

پاکستان کو انتہاپسند گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے بھرپور مہم چلانی چاہیے۔ اگر پاکستان بالآخر انہیں کمزور کردیتا ہے، تو اس سے طالبان کے ساتھ ان کے تعلقات کمزور ہوں گے اور افغانستان کی جانب سے ہمیں درپیش خطرات میں بھی کمی آئے گی۔

طالبان کے افغانستان سے ہمیں معاشی یا تزویراتی فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ اس وجہ سے کسی بہت بڑے قدم کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی وہ قابل عمل ہوگا۔ فی الحال پاکستان کا واحد حقیقت پسندانہ مقصد ایک بہت مرتکز ورکنگ ریلیشن ہونا چاہیے، جو انتہائی اقدامات سے گریز کرے، طالبان کی مدد کرے لیکن انہیں مضبوط نہ کرے اور انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کو فروغ دے، یعنی طویل المدتی نقطہ نظر کے ساتھ ایک مختصر مدت کا منصوبہ ترتیب دیا جائے۔


یہ مضمون 7 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں