اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ میں ایک دن کی توسیع کردی۔

رہنما استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے 4 نومبر کو ’ڈان نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کچھ باوردی اہلکاروں نے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کے ہمراہ اغوا کر لیا ہے۔

بعد ازاں فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے اپنے بھائی کی رہائی کے لیے درخواست دائر کی تھی جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد گوندل نے سماعت کرتے ہوئے ان کا دو روزہ جسمانی ریماڈ منظور کرتے ہوئے ان کو پولیس حکام کے حوالے کردیا تھا۔

دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے ضلعی کچہری پہنچایا جہاں دھوکہ دہی کیس کی سماعت ہوئی، کمرہ عدالت میں پراسیکیوٹر عدنان علی، وکلا صفائی علی بخاری، فیصل چوہدری، فواد چوہدری کی اہلیہ حبا فواد بھی موجود تھیں۔

کمرہ عدالت میں فواد چوہدری نے وکیل صفائی فیصل چوہدری سے مکالمہ کیا کہ میرے سر پر کپڑا ڈال کر عدالت میں لایاگیا، توہین عدالت کی درخواست دائر کرو۔

وکیل صفائی فیصل چوہدری نے کہا کہ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتاہوں، سر پر کپڑا ڈال کر لایاگیا، فواد چوہدری سابق وفاقی وزیر، سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، گزشتہ سماعت پر بھی سر پر کپڑا ڈالنے سے منع کیا تھا۔

وکیل صفائی نے استدعا کی کہ فواد چوہدری کی ہتھکڑی بھی کھلوائی جائے، انہیں فیملی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔

پراسیکیوٹر عدنان علی نے فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ فواد چوہدری سے پیسوں کی وصولی کرنی ہے، وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، ان سے پستول کی برآمدگی کروانی ہے، شناخت پریڈ کروانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے، شکایت کنندہ نے انہیں 50 لاکھ روپے امانت کے طور پر دیے، شکایت کنندہ نے پیسے واپس مانگے تو دھمکی دی گئی، ان کے پاس شکایت کنندہ کے 50 لاکھ روپے موجود ہیں۔

پراسیکیوٹر عدنان علی نے کہا کہ دو روزہ جسمانی ریمانڈ گزشتہ سماعت پر ملا، فواد چوہدری سے برآمدگی کروانے کی کوشش کی گئی، فواد چوہدری جب وفاقی وزیر تھے تو اپنے اہلکاروں کے ذریعے شکایت کنندہ کو دھمکی دی۔

انہوں نے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جب کہ وکیل صفائی نے مخالفت کی، وکیل صفائی علی بخاری نے کہا کہ عدالتی احکامات عدالت نے نافذ کروانے ہیں، توہین عدالت کی درخواست دینے کی ضرورت مجھے نہیں ہونی چاہیے۔

وکیل صفائی علی بخاری نے کہا کہ فواد چوہدری کا طبی معائنہ کروانے کے احکامات بھی عدالت نے نافذ کروانے ہیں، وکیل صفائی کی جانب سے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔

پراسیکیوٹر عدنان علی نے کہا کہ اگر گزشتہ 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرنی تھی تو مجسٹریٹ کا فیصلہ چیلنج کرنا چاہیے تھا۔

وکیل صفائی فیصل چوہدری نے فواد چوہدری کی ہتھکڑی کمرہ عدالت میں کھولنے کی استدعا کی، انہوں نے کہا کہ فیملی سے ملزم کی کمرہ عدالت میں ملاقات کروانے کے احکامات کئی بار مجسٹریٹ نے دیے۔

وکیل صفائی علی بخاری کی جانب سے فواد چوہدری کے خلاف تھانہ آبپارہ میں درج مقدمے کا متن پڑھا گیا، انہوں نے کہا کہ مقدمے میں پیسوں کی لین دین کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا گیا، فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ بلائنڈ ہے، کوئی چشم دید گواہ بھی نہیں، ان پر ایک صرف الزام کی بنیاد پر بلائنڈ مقدمہ درج کرلیا گیا، کیا شکایت کنندہ نے فواد چوہدری کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا؟

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری بار کے رکن ہیں، ان کے بھائی اور اہلیہ بھی بار کی رکن ہیں، فواد چوہدری سے تفتیش کے حوالے سے گزشتہ تین دنوں میں کیا پیشرفت ہوئی؟ سابق وفاقی وزیر کے خلاف چھ ماہ بعد تو مقدمہ کروایا گیا ہے، آپ اللہ کو حاضر ناظر جان کر جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ کردیں۔

وکیل صفائی قمر عنایت نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ فواد چوہدری سے جسمانی ریمانڈ کے ذریعے سیاسی انتقام تو نہیں لیا جارہا؟ ان کے خلاف ایسا مقدمہ درج کیا گیا جس کا وقوعہ ہی نہیں، کون سا وقوعہ گواہ ثبوت سامنے آیا ہے؟ شکایت کنندہ بھی سامنے نہیں آیا، فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ قانون کا غلط استعمال کرنے کے مترادف ہے۔

وکیل صفائی نے فواد چوہدری کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی جس پر عدالت نے ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کر تے ہوئے ان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا، فیصلہ جوڈیشل مجسٹریٹ یاسر محمود نے سنایا۔

واضح رہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری ایسے وقت میں عمل میں آئی تھی جب سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسد قیصر کو اس سے ایک روز قبل گرفتار کیے جانے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

قبل ازیں رواں برس 25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔

تاہم یکم فروری کو فواد چوہدری کو ضمانت منظور ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

9 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیرا ملٹری رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد ملک میں احتجاج کیا گیا اور اس دوران توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔

احتجاج کے بعد فواد چوہدری سمیت پی ٹی آئی کے کم از کم 13 سینئر رہنماؤں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

رہائی کے بعد 24 مئی کو فواد چوہدری نے پی ٹی آئی چھوڑ کر سابق وزیراعظم عمران خان سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری اپنے ایک بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ جیسا کہ میں نے 9 مئی کے واقعات کی واضح الفاظ میں مذمت کی تھی، اب میں نے سیاست سے وقفہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے میں پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے کر عمران خان سے راہیں جدا کر رہا ہوں۔

تاہم جون میں فواد چوہدری نے جہانگیر خان ترین کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں