نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ نے عہدے کا حلف اٹھا لیا

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2023
گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نئے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ سے عہدے کا حلف لے رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نئے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ سے عہدے کا حلف لے رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ خیبرپختونخوا کے نئے نگران وزیر اعلیٰ ہوں گے — فوٹو: عارف حیات
جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ خیبرپختونخوا کے نئے نگران وزیر اعلیٰ ہوں گے — فوٹو: عارف حیات

نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان کے انتقال کے بعد نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیے گئے جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ کے تقرر کا فیصلہ نئے نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی پر مشاورت کے لیے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی ملاقات کے بعد کیا گیا۔

ملاقات کے بعد جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ اکرم خان درانی اور محمود خان نے آئین کے آرٹیکل 224 کی شق ون (اے) کے تحت جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

بعد ازاں گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور سابق اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی جانب سے نامزد کردہ جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ کی بطور نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزدگی کی منظوری دے دی۔

بعد ازاں گورنر ہاؤس پشاور میں نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی جہاں نگران وزیر اعلیٰ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

تقریب میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، آئی جی خیبر پختونخوا، ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ساتھ سابق صوبائی وزرا اور سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

قبل ازیں سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ’ڈان نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ جسٹس (ریٹائرڈ) ارشد حسین کے نام پر اتفاق کر لیا گیا ہے، ارشد حسین شاہ خیبرپختونخوا کے نئے نگران وزیر اعلیٰ ہوں گے۔

جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ کو رواں برس کے آغاز میں سابق وزیراعلیٰ اعظم خان کی کابینہ میں وزیر قانون مقرر کیا گیا تھا، اس سے قبل وہ چیف جسٹس گلگت بلتستان کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ محمد اعظم خان گزشتہ روز 89 برس کی عمر میں پشاور میں انتقال کر گئے تھے، انہوں نے رواں سال جنوری میں بطور نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا حلف اٹھایا تھا، جب اُس وقت کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ محمود خان اور قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی کے درمیان مشاورت کے بعد ان کے نام پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اعظم خان کے انتقال کے بعد الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے ’جیو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اعظم خان کے انتقال کے بعد خیبرپختونخوا کی کابینہ ’ازخود تحلیل‘ ہو گئی، جب تک نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوجاتا، اس وقت تک صوبے کے معاملات گورنر سنبھالیں گے۔

کنور دلشاد نے زور دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 سینیٹ کو ہنگامی صورتحال میں فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے، اور اگر نئے وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا، تو معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اعظم خان کی وفات کے بعد یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ صوبے کے نئے نگران چیف ایگزیکٹو کا تقرر کیسے کیا جائے گا جب کہ اس حوالے سے کوئی واضح آئینی دفعات موجود نہیں ہیں۔

صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آرٹیکل 224 اور 224-اے کے تحت نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کے لیے طریقہ کار موجود ہے لیکن یہ دفعات کسی عہدیدار کی موت یا استعفے کی صورت میں اختیار کیے جانے والے طریقہ کار کے بارے میں خاموش ہیں، اسی طرح الیکشنز ایکٹ 2017 نگران حکومت کے فنکشن سے متعلق ہے لیکن موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اس میں کوئی شق نہیں ہے۔

صورتحال اس لیے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ محمود خان جو نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان کے تقرر کے لیے ہونے والی آئینی مشاورت میں شامل تھے، پہلے ہی سابق حکمران جماعت کو چھوڑ چکے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے سابق ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس کی نظیر نہیں ملتی، نگران وزیر اعلیٰ کا عہدہ پہلے کبھی خالی نہیں ہوا۔

تاہم بعد ازاں خیبرپختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور خیبرپختونخوا میں سابق اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کو آئین کے آرٹیکل 224 ون اے کے تحت نئے نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کے لیے مشاورت شروع کرنے کی دعوت دے دی تھی۔

گورنر نے سابق وزیراعلیٰ اور سابق قائد حزب اختلاف کو آج اتوار کی صبح 11 بجے وزیراعلیٰ ہاؤس میں مشاورت کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ مشاورت کا عمل 3 روز میں مکمل کرلیا جائے گا۔

خط میں کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان پہلے ہی کردیا گیا ہے اور توقع ہے کہ بامعنی مشاورت سے سود مند اتفاق رائے ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں