نواز شریف انتخابات سے قبل ’اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا‘ ہونے کی چھاپ مٹانے کے خواہاں

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2023
پارٹی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے قائم کیے گئے اس تاثر پر پریشان ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
پارٹی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے قائم کیے گئے اس تاثر پر پریشان ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف بظاہر اپنے مخالفین کی جانب سے خود کو ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا‘ کہے جانے اور اپنی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی ’پسندیدہ جماعت‘ قرار دیے جانے پر پریشان نظر آرہے ہیں، انہوں نے پارٹی کی نئی منشور کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک پارٹی منشور کو حتمی شکل دیتے وقت اس معاملے کا بھی جائزہ لیں۔

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) بااختیار حلقوں کے ساتھ اپنے موجودہ تعلق کا دفاع کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کر رہی ہے کہ جب پارٹی کو آج تک کبھی انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کی گئی تو اب ایسا سوال کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟

پارٹی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے قائم کیے گئے اس تاثر پر پریشان ہیں کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نئے لاڈلے ہیں اور ان مقدمات میں عدالتوں سے کلین چٹ ملنے کے بعد اقتدار میں واپسی کے لیے تیار ہیں جن میں وہ سزا یافتہ اور نااہل قرار دیے جا چکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے 40 سے زائد ارکان پر مشتمل پارٹی کی نئی منشور کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی اور لاڈلا ہونے کی چھاپ مٹانے کے لیے ایک بیانیہ تیار کریں، نواز شریف 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل اس تاثر کو مٹانے کے خواہاں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز 30 ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں، جن سے کہا گیا ہے کہ وہ 20 نومبر تک ایک ایسا نیا منشور وضع کرنے کے لیے سفارشات فراہم کریں جو عوام کو پسند آئے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں شریف برادران پر شدید تنقید شروع کردی ہے اور اُن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے سے دستبردار ہوکر سلیکٹرز کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ’سلیکٹرز‘ وہ اصطلاح ہے جسے مسلم لیگ (ن) سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے سپورٹ فراہم کرنے پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال کرتی آئی ہے۔

حتیٰ کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو ’کنگز پارٹی‘ بھی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک سلیکشن اور لاڈلے کی سیاست کا تعلق ہے، میرے خیال میں ہمیں ابھی مزید جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ لاڈلے سیاستدانوں کو چننے کی روایت ختم ہوجائے۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہونے کے الزام کے حوالے سے اپنی پارٹی کا دفاع کیا۔

انہوں نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کو سہولت حاصل ہونے کی بات کیوں کی جارہی ہے، مشرف دور کے الیکشن ہوں یا 2018 کے الیکشن، مسلم لیگ (ن) کو ہمیشہ مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی، اگر آج ہمیں اس صورتحال کا سامنا نہیں ہے تو کہا جا رہا ہے کہ ہمیں سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں نواز شریف کی سزائیں چند ہفتوں میں ختم ہوجائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ ان کی سزائیں برقرار نہ رہیں، عدالت کو اس ناانصافی کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے، چند ہفتوں میں یہ عمل مکمل ہو جائے گا، جس سے وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو جائیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک برقرار ہے، وفاق اور صوبے دونوں میں حکومتیں مسلم لیگ (ن) بنائے گی۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سابق رہنما منصب ڈوگر، احمد رضا مانیکا، آصف بھاوا، پیر نظام الدین سیالوی، فاروق مانیکا، ماجد نواز اور سعید خان پارٹی میں واپس آگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) چوہدری نثار علی خان کے خلاف امیدوار کھڑا کرے گی، یاد رہے کہ چوہدری نثار علی خان ماضی میں نواز شریف کے ساتھی رہ چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں