غزہ پر حملوں پر اسرائیل کا سفارتی بائیکاٹ، امارات اور بحرین نے تجویز مسترد کردی

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2023
اجلاس میں اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی کے نتیجے پر نہ پہنچ سکے — فوٹو: رائٹرز
اجلاس میں اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی کے نتیجے پر نہ پہنچ سکے — فوٹو: رائٹرز

غزہ کی صورتحال کے حوالے سے گزشتہ روز اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کا مشترکہ سربراہی اجلاس اسلامی ممالک کی سربراہان کی مذمت تک محدود رہا اور بڑے بڑے بیانات دینے کے باوجود تمام اسلامی ممالک کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق اجلاس میں اسرائیل سے بمباری فوری روکنے اور گزہ میں پھنسے فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کے لیے محفوظ راستے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن تمام ہی ممالک نے اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی معاشی یا سیاسی کارروائی کے حوالے سے فیصلے سے گریز کیا۔

اس اجلاس سے قبل عرب لیگ کے اجلاس میں تمام ممالک اعلامیے کے حوالے سے کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے جس کے سبب اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

اجلاس میں الجزائر اور لبنان سمیت چند ملکوں نے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے ردعمل میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی ترسیل روکنے کی تجویز پیش کی۔

اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والے عرب ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی کارروائیوں پر اس سے معاشی اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیں۔

ایک سفیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 2020 میں اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والے متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت کم از کم تین ملکوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔

ان ممالک نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے نیتن یاہو حکومت کے ساتھ بات چیت کے مزید راستے تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

غزہ سے جاری بیان میں حماس نے اجلاس کے شرکا سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جنگی جرائم پر اپنے ملکوں سے اسرائیلی سفرا کو بے دخل کردیں اور غزہ کی پٹی کے لیے علیحدہ سے فنڈ قائم کریں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے تل ابیب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرب قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ حماس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو کیونکہ حماس، غزہ کی پٹی پر صرف غربت اور خون لے کر آئی ہے۔

اس مشترکہ اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں شرکت کے لیے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ریاض پہنچے تھے اور اس طرح وہ 2012 کے بعد سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے ایرانی صدر بن گئے۔

اس سے قبل 2012 میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے اس وقت کے ایرانی صدر احمدی نژاد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔

اجلاس سے خطاب کے علاوہ ابراہیم رئیسی نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی دوبدو ملاقات کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں