عمران خان توشہ خانہ، القادر ٹرسٹ کیس میں بھی گرفتار

14 نومبر 2023
سابق وزیراعظم سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیراعظم سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ ریفرنس میں بھی گرفتار کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کی توثیق اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو ان پر عملدرآمد کی ہدایت کے بعد نیب نے گزشتہ روز سابق وزیراعظم کو گرفتار کرلیا۔

قبل ازیں سماعت کے دوران جج نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ عمران خان کی ان 2 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کو بحال کرنے کا کیا اسٹیٹس ہے؟

نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے کہا کہ درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) میں زیر التوا ہیں اور ابھی تک کوئی حکم امتناع جاری نہیں ہوا۔

جج محمد بشیر نے مزید قانونی کارروائی کے بارے میں استفسار کیا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے تحت ملزم کو گرفتاری کے 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں زیرِ حراست ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں، عدالت اڈیالہ جیل کے ایس پی جیل کو وارنٹ پر عملدرآمد کا حکم دے سکتی ہے۔

خصوصی عدالت (آفیشل سیکرٹ ایکٹ) کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں سردار مظفر عباسی نے کہا کہ خصوصی عدالت کے جج نے بھی منظوری دے دی ہے۔

استغاثہ نے دونوں کیسز میں تفتیش مکمل کرنے کے لیے عمران خان کو تحویل میں لینے کی اجازت کی استدعا کی، بعد ازاں احتساب جج نے نیب کو پی ٹی آئی سربراہ کو گرفتار کرنے اور تفتیش کرنے کی اجازت دے دی۔

نیب نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے سرکاری تحائف لے کر بطور وزیر اعظم اپنے اختیارات کا مبینہ طور پر غلط استعمال کرنے پر ریفرنس دائر کیا ہے۔

اگست میں عمران خان کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے ایک علیحدہ توشہ خانہ کیس میں 3 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر کیے گئے اس کیس میں عمران خان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ٹیکس ڈیکلریشنز میں سرکاری تحائف کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا کیونکہ وہ سائفر کیس میں ٹرائل کا سامنا کررہے ہیں۔

القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

سابق وزیراعظم پر این سی اے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق اور دستاویزات کو چھپا کر وفاقی کابینہ کو گمراہ کرنے کا بھی الزام ہے۔

برطانیہ سے موصول ہونے والی اس رقم کو قومی خزانے میں جمع ہونا تھا لیکن کراچی میں غیر قانونی طور پر اراضی پر قبضہ کرنے پر بحریہ ٹاؤن پر عائد 450 ارب روپے کے جرمانے کی مد میں یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی گئی تھی۔

رواں برس 9 مئی کو نیب نے چیئرمین پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا تھا، جس پر ان کے حامیوں کی جانب سے ملک گیر احتجاج کیا گیا، اس دوران توڑ پھوڑ کی گئی اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں