معروف بھارتی مبلغ اور اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی موت کے حوالے سے 9 دسمبر کی دوپہر کو سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں وائرل ہونے پر دنیا بھر میں ان کے کروڑوں مداح پریشان ہوگئے۔

جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سینیٹر عبدالکریم نے اپنی مختصر ٹوئٹ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے انتقال کی پھیلنے والی خبروں کو جھوٹا قرار دیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ الحمدللہ، ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ اپنے مشن کی تکمیل کیلئے زندہ و سلامت اور صحت و عافیت کیساتھ ملائیشیا میں مقیم ہیں۔

انہوں نے ان کے عقیدت مندوں کو اپیل کی کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی خبروں سے پریشان نہ ہوں۔

پاکستان کی اسلامی تنظیم کے عہدیدار آصف حمید نے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے کچھ دیر قبل ہی ڈاکٹر ذاکر نائیک سے بات کی، وہ خیریت سے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ سوشل میڈیا پر ذاکر نائیک کی موت کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، جس سے کروڑوں لوگ پریشان ہیں۔

آصف حمید نے ذاکر نائیک کی صحت مند اور دراز عمر کی دعا کرتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور عوام کو اپیل کی کہ وہ بھارتی مبلغ کی موت کے حوالے سے پھیلنے والی جھوٹی خبروں پر یقین نہ کریں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے آفیشل فیس بک اور ٹوئٹر پر مبلغ کی تازہ ویڈیوز اور بیانات شیئر کیے گئے اور مذکورہ پوسٹس پر بھی لوگوں نے کمنٹس کرکے ان کی موت کے حوالے سے پھیلنے والی خبروں پر سوال کیا۔

ذاکر نائیک کی فیس بک پوسٹ اور ٹوئٹ پر بھی بعض لوگوں نے کمنٹس کیے کہ مبلغ وفات پا گئے ہیں جب کہ وہاں متعدد صارفین نے کمنٹس کرتے ہوئے اسلامی اسکالر کی موت کی خبروں کو جھوٹا قرار دیا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے صارفین کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالوں کے جوابات نہیں دیے گئے، جس وجہ سے لوگوں میں زیادہ مایوسی پائی گئی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک 2016 میں بھارت چھوڑ کر ملائیشیا منتقل ہوگئے تھے جہاں انہیں مستقل رہائش فراہم کردی گئی تھی۔

ذاکر نائیک مبینہ طور پر انتہا پسندی پر اکسانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں بھارت کو مطلوب ہیں اور وہ متعدد بار ملائیشیا کو انہیں بے دخل کرنے کی درخواست کر چکا ہے، جسے مسترد کیا جاتا رہا ہے۔

ان کا پیدائشی نام عبدالکریم نائیک ہے، وہ ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں 1965 کو پیدا ہوئے، وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے مبلغ اور مانے ہوئے اسکالر بھی ہیں۔

وہ بھارت میں اسلام ریسرچ اینڈ ایجوکیشن نامی فلاحی ادارہ چلاتے تھے، اسی ادارے کے تحت ان کا اسلامی تعلیمات کا ٹی وی چینل پیس بھی چلتا رہا ہے، جس پر اب بھارت اور بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک میں پابندی عائد ہے۔

ان پر بھارتی حکومت نے 2015 کے بعد الزامات لگانا شروع کیے اوران پر الزام ہے کہ وہ بیرون ممالک سے فنڈز لے کر بھارت میں مبینہ طور پر اسلامی تبلیغ کے ذریعے انتہاپسندی پھیلاتے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کو خصوصی طور پر ہندومت اور مسیحیت کے پیروکاروں سے مناظروں کی وجہ سے شہرت حاصل ہے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں