سینیئر صحافی اور انگریزی اخبار ’دی فرنٹیئر پوسٹ‘ کے بانی رحمت شاہ آفریدی طویل علالت کے بعد ہفتے کی رات انتقال کر گئے، اہل خانہ کے مطابق ان کی عمر 74 سال تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کی نماز جنازہ باغ ناران میں ادا کی گئی جہاں ان کے آبائی علاقے ضلع خیبر سے رشتہ داروں، دوستوں، صحافیوں اور دیگر لوگوں نے شرکت کی۔

ان کے پسماندگان میں 4 بیٹے محمود اللہ آفریدی، امریکا میں مقیم صحافی جلیل آفریدی، بلال آفریدی اور بیرسٹر احمد شاہ آفریدی شامل ہیں۔

رحمت شاہ آفریدی کی وفات پر مختلف حلقوں کی جانب سے اظہار تعزیت اور پاکستان میں بالعموم اور بالخصوص خیبر پختونخواہ میں شعبہ صحافت کی ترقی میں ان کے کردار پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔

رحمت شاہ آفریدی نے 1985 میں پشاور سے ’فرنٹیئر پوسٹ‘ کا آغاز کیا تھا جب ملک میں جنرل ضیا کی حکومت تھی، وہ اس وقت اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے، بعد ازاں انہوں نے پشاور سے ایک اردو روزنامہ ’میدان‘ بھی شروع کیا۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں اور عملے نے ان کی وفات کو ایک عہد کا اختتام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ مرحوم رحمت شاہ آفریدی خیبرپختونخوا اور سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے حقوق کے دفاع کے بارے میں بہت واضح تھے۔

رحمت شاہ آفریدی محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے جانے جاتے تھے، قبائلی حلقوں میں اثر و رسوخ کے سبب 1993 کے عام انتخابات کے بعد ایسی خبریں آئیں کہ انہوں نے کچھ قبائلی اراکین اسمبلی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کی حمایت کرنے پر آمادہ کیا۔

سابق صدر و رہنما یپلز پارٹی آصف علی زرداری نے ان کے بیٹوں سے اظہار تعزیت کیا، ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ رحمت شاہ آفریدی کی صحافت کے لیے خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔

آصف زرداری نے اللہ تعالیٰ سے مرحوم کی روح کو ابدی سکون اور سوگوار خاندان کو یہ ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرنے کی دعا کی۔

رحمت شاہ آفریدی کو 1999 میں انسداد منشیات فورس نے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک ٹرائل کورٹ نے رحمت شاہ آفریدی کو سزائے موت سنائی، جسے بعدازں لاہور ہائی کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے اداروں نے ان کی گرفتاری کی وجہ سیاسی دشمنی کو قرار دیا تھا، 2008 میں اُس وقت کی حکومت نے ان کی سزا معطل کر دی تھی جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

رہائی کے بعد انہیں طبی مسائل کا سامنا رہا لیکن صحافت کے لیے ان کا شوق ختم نہیں ہوا اور انہوں نے اپنا اخبار جاری رکھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں