بھارتی شہر دہلی کے مہرولی گاؤں میں واقع ظفر محل میں 3 مغل بادشاہوں کے مقبروں اور بہادر شاہ ظفر کے خالی مقبرے کے سامنے جالی (یا ریلنگ) کے ایک حصے کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا جس نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کو جنم دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اِس واقعے پر بہت سے لوگوں، خاص طور پر تاریخی ورثے سے محبت کرنے والوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔

تاریخ دان ولیم ڈیل ریمپل نے ’ایکس‘ پر ایک تلخ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ واقعہ انتہائی خوفناک اور اے ایس آئی کی خوفناک غفلت ہے‘، وہ اپنے تبصرے میں بظاہر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا حوالہ دے رہے تھے۔

ڈیل ڈیلریمپل ’دی لاسٹ مغل‘ اور کئی دیگر مشہور کتابوں کے مصنف ہیں، وہ ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں ایک اور پوسٹ پر تبصرہ کر رہے تھے جس میں ایک تصویر تھی جس میں بظاہر ایک قبر کے سامنے ٹوٹی ہوئی جالی دکھائی دے رہی تھی۔

تصویر کے کیپشن میں لکھا تھا کہ کسی نے بھارت کے آخری مغل بادشاہ کے مقبرے پر حملہ کر کے تباہ کر دیا ہے، ایک جالی مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور دوسری کو نقصان پہنچا ہے۔

اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے صحافی سنیت اروڑا نے ایکس پر لکھا کہ دہلی کے مہرولی گاؤں کے ظفر محل میں توڑ پھوڑ کی اطلاعات ہیں۔

سنیت اروڑا نے کہا کہ گارڈ نے بتایا ہے کہ 8 روز قبل 3 مغل بادشاہوں کے مقبروں اور بہادر شاہ دوم کے خالی مقبرے کے سامنے جالی کے کچھ حصے کو توڑ پھوڑ کرکے تباہ کر دیا گیا۔

بہادر شاہ ظفر میانمار کے شہر رنگون (حالیہ نام ینگون) میں دفن ہیں، اس لیے ڈیل ڈیلریمپل کے ان تبصروں نے ایکس پر طرح طرح کی بحث چھیڑ دی۔

کچھ صارفین نے اس دعوے پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس جگہ بادشاہ دفن ہیں جبکہ دیگر صارفین نے سوال کیا کہ کون سا بھارتی ادارہ اس کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔

یہ جگہ وقف کی ملکیت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں ڈیل ڈیلریمپل نے کہا کہ اس یادگار کی دیکھ بھال اے ایس آئی کرتا ہے۔

موتی مسجد سے متصل مغل شاہی خاندان کی قبریں ہیں، ویب سائٹ monumentsofdelhi.com کے مطابق بہادر شاہ ظفر کے 2 پیش رو (ان کے والد اکبر شاہ دوم اور دادا شاہ عالم دوم) وہیں دفن ہیں، علاوہ ازیں بتایا جاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے ایک بیٹے بھی وہیں دفن ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر ظفر محل میں سنگ مرمر سے بنے احاطے ’سردگاہ‘ میں اپنے والد کے پاس دفن ہونا چاہتے تھے، تاہم 1858 میں انہیں برطانیہ کے زیر انتظام برما میں ینگون جلاوطن کر دیا گیا، جہاں 7 نومبر 1862 کو ان کی موت واقع ہوگئی۔

’دی وائر‘ کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ظفر محل کو اکبر شاہ دوم نے 18ویں صدی میں تعمیر کیا تھا، اس وقت اس عمارت کو لال محل اور رنگ محل کہا جاتا تھا، بعد میں بہادر شاہ ظفر نے ہاتھی گیٹ بنوایا، بعدازاں اس کا نام ’ظفر محل‘ رکھ دیا گیا۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ اکتوبر میں ظفر محل کی بحالی کے اقدامات کریں گے لیکن انہوں نے تاحال ایسا نہیں کیا۔

ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ یہ بہت افسوسناک ہے، اس غفلت پر اے ایس آئی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، انہوں نے برسوں سے محل کو ویران چھوڑ دیا ہے، اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں