پاک-افغان کشیدگی میں کمی کی کوششیں، افغان طالبان کے اہم رہنما کی آئندہ ماہ اسلام آباد آمد متوقع

31 دسمبر 2023
ملا شیرین آخوند اسلام آباد میں انٹیلی جنس اور دفتر خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ملا شیرین آخوند اسلام آباد میں انٹیلی جنس اور دفتر خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

افغان طالبان کے سینیئر رہنما اور صوبہ قندھار کے گورنر ملا شیرین آخوند کی آئندہ ماہ کے اوائل میں اسلام آباد آمد متوقع ہے تاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر دو طرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والا تعطل ختم کرنے کی ایک نئی کوشش کی جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملا شیرین آخوند اسلام آباد میں انٹیلی جنس اور دفتر خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

یہ دورہ کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے افغان طالبان کی کوششوں کا حصہ ہے، قبل ازیں اسی طرح طالبان نے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن کو کابل آنے کی دعوت دی تھی تاکہ وہ مذاکرات میں معاونت فراہم کرسکیں، تاہم دفتر خارجہ نے اسے محض ایک نجی طور پر دی جانے والی دعوت قرار دیا تھا۔

ملا شیرین آخوند افغان طالبان کی ایک اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے طالبان کے عسکری اور سیاسی شعبوں میں مختلف کردار ادا کیے ہیں، سینیئر قیادت کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات اور طالبان کی اہم سرگرمیوں میں شمولیت انہیں افغانستان کے حکمرانوں کی قیادت کا ایک نمایاں اور بااثر رکن بناتی ہے۔

وہ پہلے بھی پاکستان کے ساتھ مصروف عمل رہے ہیں اور افغان طالبان انتظامیہ کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے پر جاری تعطل نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے، پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور افغان سرزمین سے سرگرم اِس گروپ کے خلاف کارروائی کرنے میں افغانستان کی ناکامی کی وجہ سے اس کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

تہران میں سینیٹر مشاہد حسین کے ساتھ گفتگو کے دوران طالبان کے وزیر خارجہ ملا متقی نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے ناپید ہونے کی نشاندہی کی، یہ خلا ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سبب بنا۔

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد یہ امکان پیدا ہوا کہ افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کے مسئلے کو سنبھال لے گی، افغان طالبان نے پاکستانی فوج اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں معاونت فراہم کی، جس کے نتیجے میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سینئر رہنماؤں کو رہا کیا، تاہم مسلسل جھڑپوں اور کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کی وجہ سے جنگ بندی قلیل مدتی ثابت ہوئی۔

پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت سے مسلسل مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان سرزمین سے سرگرم متعلقہ عسکریت پسند گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، تاہم افغان طالبان اپنے تاریخی اتحاد اور نظریاتی تعلقات کی وجہ سے ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا لیکن یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کو براہ راست حملے کرنے سے روک دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں