عمران خان کی تقاریر کو نشر کرنے پر پابندی نہیں ہے، پیمرا

04 جنوری 2024
لاہور ہائی کورٹ نے اب تک اس کیس پر 8 سماعتیں کی ہیں۔ — فائل فوٹو:   فیس بُک/ عمران خان
لاہور ہائی کورٹ نے اب تک اس کیس پر 8 سماعتیں کی ہیں۔ — فائل فوٹو: فیس بُک/ عمران خان

پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر کو نشر کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

یہ انکشاف پیمرا کے وکیل ہارون دگل نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ سال پیمرا کے تمام سیٹیلائٹ ٹیلی ویژن چینلز پر ان کی تقریر اور پریس ٹالک کو نشر نا کیے جانے کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے دوران کیا۔

یہ پابندی اس وقت لگائی گئی جب عمران نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر تنقید کرتے ہوئے ان پر موجودہ حکمرانوں کو مبینہ بدعنوانی کے مقدمات میں تحفظ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

بعد ازاں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عدالت سے رجوع کیا اور پابندی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا کا حکم خالص طور پر انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے نکالا گیا ہے، عمران کے وکیل احمد پنسوٹا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اب تک اس کیس پر 8 سماعتیں کی ہیں۔

آج عمران کے وکیل پنسوٹا اور وفاقی حکومت کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے مقدمے کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ پیمرا درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے تحفظات کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر دباؤ ڈالنے سے گریز کرے۔

جواب میں پیمرا کے وکیل میر نے کہا کہ درخواست گزار کی تقاریر نشر کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

بعد ازاں مختصر دلائل کے بعد عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

عمران خان بمقابلہ پیمرا

گزشتہ سال جاری ہونے والے حکم امتناع میں پیمرا نے سابقہ ​​ہدایات کا حوالہ دیا تھا جس میں تمام لائسنس دہندگان کو ہدایت کی گئی تھی کہ ریاستی اداروں کے خلاف کوئی بھی مواد ٹیلی کاسٹ کرنے سے گریز کریں۔

اتھارٹی نے نوٹ کیا تھا کہ عمران اپنی تقاریر اور بیانات میں ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں اور نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں جو امن و امان کی بحالی کے لیے نقصاندہ ہے اور جس سے عوامی امن و سکون کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

پیمرا نے کہا تھا کہ لائسنس دہندگان نے وقت میں تاخیر کے مؤثر طریقہ کار کو استعمال کیے بغیر مواد ٹیلی کاسٹ کیا، یہ اتھارٹی کے قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔

آرڈر میں بتایا گیا کہ لہذا، مجاز اتھارٹی یعنی چیئرمین پیمرا مذکورہ بالا پس منظر اور وجوہات کے پیش نظر پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2007 کے ذریعے پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27 اے میں کی گئی ترمیم سے ملنے والے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر عمران خان کی تقریر (ریکارڈ یا لائیو) کی نشریات اور دوبارہ نشریات پر فوری طور پر پابندی لگاتی ہے۔

اتھارٹی نے تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ ایک غیر جانبدار ایڈیٹوریل بورڈ تشکیل دیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے پلیٹ فارمز کو کوئی بھی کسی بھی طرح سے توہین آمیز اور کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف نفرت انگیز، متعصبانہ ریمارکس دینے کے لیے استعمال نہ کرے جو ملک کے امن و امان کے لیے نقصاندہ ہو۔

پیمرا کے حکم نامے کو چیلنج کرتے ہوئے عمران خان نے نشاندہی کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ماضی میں بھی اسی طرح کے امتناع کے حکم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ پیمرا نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے اور آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت دیے گئے آئینی حقوق کی پرواہ کیے بغیر حکم جاری کیا، انہوں نے استدعا کی کہ اتھارٹی کو ممنوعہ بلینکیٹ حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے جو تناسب کے اصول کی خلاف ورزی ہو۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 8 کے مطابق اجلاسوں کے لیے کورم بنانے کے لیے کل ارکان کی ایک تہائی تعداد ہونا ضروری ہے، لیکن جس اجلاس نے عمران کے خلاف حکم نامہ پاس کیا اس میں صرف چیئرمین اور 3 ممبران شامل تھے جس نے حکم کو ’کورم نان جوڈائس‘ بنا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کا حکم غیر قانونی، ان کے دائرہ اختیار سے تجاوز اور آئین کے تحت درج بنیادی حقوق کے منافی ہے اور اسے ایک طرف رکھا جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں