امریکا میں پہلی بار کینتھ اسمتھ نامی مجرم کو نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق 58 سالہ کینتھ اسمتھ کو امریکا کی ریاست لاباما میں ہولمین کریکشنل فیسٹیلیٹی میں آج مقامی وقت 8 بجکر 25 منٹ پر مردہ قرار دیا گیا۔

اسمتھ کو 1989 میں ایک مبلغ کی اہلیہ کو قتل کرنے پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔

سن 2022 میں انہیں مہلک انجکشن دے کر سزائے موت دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ ناکام ثابت ہوئی، اور اب دوسری کوشش نائٹرجن گیس کی مدد سے کی گئی ہے۔

مجرم کے پہنے ماسک میں نائٹروجن گیس چھوڑی گئی، سانس لینے پر آکسیجن کی کمی ہوئی اور ان کی موت واقع ہوگئی۔

نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت کا قانون 1982 کے بعد لاگو ہوا تھا، ریاست الاباما کے مطابق سزائے موت دینے کا یہ طریقہ ’سب سے کم تکلیف دہ‘ ہے۔

امریکا میں زہریلی گیس کے ذریعے سب سے پہلی سزائے موت 1999 میں دی گئی تھی جب ایک مجرم کو ہائیڈروجن سائینائیڈ گیس کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔

الاباما کے علاوہ اوکلاہوما اور مسیسیپی میں نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت کی منظوری دی گئی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے نائٹروجن گیس سے سزائے موت کو غیر انسانی فعل قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اس طرح کی پھانسی کو روکنے کی کوشش کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ سزائے موت کے اس طریقہ کار کو کبھِی آزمایا نہیں گیا ہے اور یہ تشدد اور ظلم کے متراف ہے اور اس غیر انسانی عمل کو روکنا چاہیے۔

سزائے موت سے قبل مجرم کینتھ اسمتھ کے آخری الفاظ تھے کہ ’آج رات الاباما نے انسانیت کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا۔‘

اسمتھ کا مزید کہنا تھا کہ ’میں محبت، امن اور روشنی کے ساتھ جا رہا ہوں، مجھے سپورٹ کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔‘

تبصرے (0) بند ہیں