8 ماہ انسٹاگرام کے ذریعے آن لائن ڈیٹنگ کے بعد لیلیٰ اور عدیل کی ملاقات پہلی بار کراچی کی ساحلی پٹی میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی۔ لیلیٰ اس وقت 20 سال جبکہ عدیل کی عمر 21 سال تھی۔ سورج غروب ہوتا دیکھتے ہوئے دونوں نے گھنٹوں باتیں کیں۔

لیلیٰ نے بتایا کہ وہ عدیل جیسے نفیس انسان سے کبھی نہیں ملی تھیں اور 25 یا 26 سال کی عمر تک جیسے ہی دونوں معاشی طور پر خودمختار ہوجاتے، لیلیٰ اس کے ساتھ شادی کی خواہش مند تھیں۔ وہ خوش تھیں کیونکہ انہیں ایک ایسا شخص مل گیا تھا جو ان کی باتیں سنتا تھا اور اس سے مخلص تھا۔ تاہم ان کے تعلقات کے تیسرے سال 2011ء میں تمام تاثر بدل گیا۔

وہ جب عدیل سے ملیں تو وہ بائیوسائنسز پڑھ رہا تھا اور جلد ہی اس کا گریجویشن ہونے والا تھا۔ لیلیٰ بتاتی ہیں کہ ’شروعات میں سب اچھا لگ رہا ہوتا ہے اور پھر آپ کو ریڈ فلیگس (پریشان کن عندیے) نظر آنے لگتے ہیں، جلد ہی وہ ایک کنٹرولنگ مرد بن گیا، اس نے مجھے اپنی ذات پر سوالات اٹھانے پر مجبور کردیا اور میرا جذباتی استحصال کیا۔ اور پھر ایک دن مجھ سے میری نازیبا تصاویر مانگیں، میں نے فوراً انکار کردیا لیکن میں اس وقت یہ نہیں سمجھ پائی کہ میرے ساتھ آخر کیا ہورہا ہے‘۔

عریاں تصاویر بھیجنے سے انکار کے دو دن بعد عدیل نے لیلیٰ کو میسج کیا۔ لیلیٰ نے بتایا کہ میسج کی ایک سیریز تھی جن میں ’میری ڈیپ فیک تصاویر تھیں اور جن کے ساتھ مجھے گالیاں اور انتہائی نازیبا الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ میں اس وقت ماؤف ہوچکی تھی اور صدمے کی وجہ سے میں کوئی ردعمل بھی نہیں دے سکی۔ میں جانتی تھی کہ یہ میری تصاویر نہیں لیکن پھر بھی وہ تصاویر قابلِ یقین حد تک اصلی لگ رہی تھیں‘۔

لیلیٰ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل دنیا میں موجود خواتین کے لیے ڈیپ فیکس خطرہ ہیں۔ یہ ناقابلِ تصور حد تک خواتین کے جذباتی استحصال کا سبب بن سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے لوگ سب سے پہلے خواتین پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ چونکہ میں مسیح ہوں، کچھ مرد سوچتے ہیں کہ مسیحی خواتین آزاد خیال ہوتی ہیں اس لیے وہ جذباتی استحصال پر اعتراض نہیں کریں گی جوکہ غلط اور نفرت انگیز خیال ہے‘۔

اپنی فیملی کے خوف سے لیلیٰ نے عدیل کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے عدیل نے ان کی ڈیپ فیک تصاویر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن گروپس میں پھیلائیں۔

ڈیپ فیک تصاویر قابلِ یقین حد تک اصل لگتی ہیں
ڈیپ فیک تصاویر قابلِ یقین حد تک اصل لگتی ہیں

مصنوعی ذہانت کا نقصان دہ استعمال

مصنوعی ذہانت نے دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس سے تیزی سے کمپیوٹر سیکھا اور ان کاموں کو باآسانی کیا جاسکتا ہے جنہیں پہلے ہاتھوں سے کیا جاتا تھا۔ لیکن اس نے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تشویش بھی پیدا کردی ہے بالخصوص جب بات ڈیپ فیکس سے لاحق اخلاقی اور سلامتی کے خطرات کی ہو۔

ڈیپ فیکس یا بنا اجازت لی گئی غیراخلاقی تصاویر ڈیجیٹل طور پر بصری یا سمعی مواد کو تبدیل کرتی ہیں جن سے لوگوں کی جعلی تصاویر بنائی جاتی ہیں یا انہیں جعلی منظرناموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یوں حقیقی اور مصنوعی تصاویر میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈیپ فیکس کا استعمال غلط معلومات پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے اور اکثر اس کا استعمال غلط مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔

ڈیپ فیکس بالخصوص خواتین کی آن لائن سیفٹی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں قانون سازی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ عالمی شہرت یافتہ خواتین جیسے امریکی پاپ اسٹار ٹیلر سوئفٹ بھی ڈیپ فیکس کے خطرات سے محفوظ نہیں۔ مزید یہ کہ اس ٹیکنالوجی سے سرحد پار خواتین اداکار بھی پریشان ہیں جن میں راشمیکا مندانا، کترینہ کیف، کاجول اور پریانکا چوپڑا جیسے نمایاں نام شامل ہیں۔

البتہ یہ خواتین حکام سے رجوع کرسکتی ہیں اور انہیں اپنے مداحوں کی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن عام خواتین متاثرین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف خاموش رہتی ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے فکرمند بھی ہیں۔ ایسی خواتین خود کو خاندان کی بدنامی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے خواتین کی مدد کرنے کے ذرائع بھی کم ہیں۔

لیلیٰ جو اب 25 سال کی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ 2021ء میں قانونی ہیلپ لائنز کے حوالے سے آگاہ تھیں لیکن وہ ان پر رابطہ کرنے سے ہچکچا رہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’معاشرے کو سمجھنا چاہیے کہ ہر لڑکی یا خاتون کے لیے قانونی ایکشن لینا آسان نہیں ہوتا۔ یہاں جرم کا بوجھ بھی متاثرین کے کندھوں ہر ڈال دیا جاتا ہے، وہیں اُس شخص کے خلاف شکایت نہ کرنے پر مجھے پچھتاوے اور ندامت بھی محسوس ہورہی تھی‘۔

ذہنی ٹراما

لیلیٰ اس نفسیاتی صدمے کے بارے میں کھل کر بتاتی ہے جس کا تجربہ انہیں کرنا پڑا۔ ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ لوگ اس وقت تک میرا درد نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ وہ خود اس قسم کے جرم کا شکار نہ ہوں۔

وہ کہتی ہے ’بات صرف شرم کی نہیں۔ میں اس ذہنی حالت میں نہیں تھی کہ اپنی معمول کی زندگی کو جاری رکھ پاتی۔ مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ واقعی میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ میں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپارہی تھی کہ میں نے ایسے شخص پر بھروسہ کیا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کرے گا۔

’میرے رازداری اور ذاتی حدود کی خلاف ورزی کی گئی۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میرا اپنے ذہن اور جسم پر کوئی اختیار نہیں بلکہ میں جذبات سے عاری ایک شخص ہوں‘۔

لوگ اس وقت تک میرا درد نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ وہ خود اس قسم کے جرم کا شکار نہ ہوں
لوگ اس وقت تک میرا درد نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ وہ خود اس قسم کے جرم کا شکار نہ ہوں

وہ بتاتی ہیں کہ جس لمحے انہوں نے وہ تصاویر دیکھیں، وہ لمحہ اب بھی انہیں خوف زدہ کرتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں ’یہ خیال کے کئی مردوں کو میری نازیبا تصاویر تک رسائی حاصل ہے۔ اس نے مجھ سے میرا دماغی سکون چھین لیا۔ میں نے کھانا چھوڑ دیا، میرا وزن کم ہونے لگا، نہ میں لوگوں سے بات کرنا پسند کرتی تھی اور نہ ہی کسی کے ساتھ رومانوی تعلقات قائم کرنا چاہتی تھی۔ اس واقعے سے قبل میں زندہ دل انسان تھی اور اس واقعے کے بعد مجھے دوبارہ زندگی کی ڈگر پر آنے کے لیے کافی وقت لگا‘۔

قانون سازی اور شکایات

سال 2023ء میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں تقریباً 11 ہزار شکایات کا اندراج ہوا۔ ان میں سے تقریباً 1200 کے قریب شکایات ڈیپ فیکس اور غیر اخلاقی تصاویر کے حوالے سے ہیں اور ان میں شکایت کنندہ خواتین زیادہ ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق رواں سال انہیں اس طرز کی 1020 شکایات موصول ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ سائبر ہراسانی سے خواتین کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرنے والےادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق 2023ء میں دائر 1371 شکایات میں سے 155 ڈیپ فیکس سے متعلق ہیں۔

ڈیپ فیکس نے پاکستان میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تعصب کے ایک نئے دور کا خاموش آغاز کیا ہے جس نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کیے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کیسے کارروائی کریں گے۔

ایف آئی اے کی ہینڈ بُک کے مطابق ’اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیوں میں زیادہ تر خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ غیراخلاقی تصاویر کی 80 فیصد سے زائد متاثرین خواتین ہیں جو ہمارے معاشرے میں خواتین کی خودمختاری اور حفاظت پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔

پاکستان کے قوانین اس حوالے سے کچھ مسائل کو تو حل کرسکتے ہیں لیکن تمام مسائل نہیں۔

مثال کے طور پر پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 21 میں 18 سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کو آن لائن استحصال سے بچانے سے متعلق ایک مخصوص ذیلی سیکشن کے ساتھ، ان جرائم کا ازالہ کرتا ہے۔

ملزمان کی طرف سے تصاویر ہٹانا زیادہ مشکل کام ہوتا ہے تاکہ وہ خواتین کو بلیک میل نہ کریں
ملزمان کی طرف سے تصاویر ہٹانا زیادہ مشکل کام ہوتا ہے تاکہ وہ خواتین کو بلیک میل نہ کریں

ذیلی سیکشن ایک ’بالخصوص ان افراد کے متعلق ہے جو جان بوجھ کر اور عوامی طور پر درج ذیل نیت کے ساتھ معلوماتی نظام کے ذریعے معلومات کی نمائش، ڈسپلے یا ترسیل کرتے ہیں۔ کسی شخص کے چہرے کو فحش تصویر پر لگانا جس میں ویڈیوز بھی شامل ہیں، غیراخلاقی تصاویر سے کسی شخص کو دھمکانا یا کسی بالغ کے ساتھ جنسی عمل کرنا، اس پر آمادہ کرنا یا اُکسانا‘ شامل ہیں۔

فوجداری اور ڈیجیٹل قوانین کی ماہر مناہل فاروق کہتی ہیں ’پیکا کا سیکشن 21 غیراخلاقی تصاویر اور ڈیپ فیکس سے متعلقہ ہے اور اس طرح کے مواد پر اس سیکشن کا اطلاق ہوتا ہے‘۔

سیکشن 21 کے تحت 5 سال تک قید کی سزا یا تقریباً 50 لاکھ روپے کا جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں۔ تاہم متاثرہ شخص کی عمر 18 سال سے کم ہے تو مجرم کو 7 سال تک کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

متاثرہ شخص پر الزام تراشی

جہاں آن لائن دنیا میں قدم رکھنے والی پاکستانی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگ اپنے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے آگاہ ہیں، وہیں لوگوں میں ڈیپ فیکس کے خطرات کے حوالے سے آگاہی زیادہ نہیں۔ پدرشاہی نظام اور ڈیجیٹل دنیا کے حوالے سے کم علمی کے باعث ہمارے معاشرے میں مجرم کے احتساب کے بجائے متاثرین پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔

وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی بانی نگہت داد کہتی ہیں ’ہمارا معاشرہ پدرشاہی ہے، یہ خواتین پر یقین نہیں کرتا بلکہ وہ بیرونی ذرائع کو ان پر فوقیت دیتا ہے‘۔ نگہت داد کے خیال میں شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنی شکایات رپورٹ نہیں کرتیں۔

وہ کہتی ہیں ’ڈیپ فیکس سے مجرموں کو حمایت ملتی ہے۔ وہ انہیں (تصاویر) کو زیادہ حقیقی بنانے کے لیے مزید تکنیک اور حربے فراہم کرتے ہیں جس سے وہ خواتین جو فوٹو شاپ تصاویر پر یقین نہیں رکھتیں انہیں یہ تصدیق کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آیا کوئی تصویر اصلی ہے یا نقلی‘۔

خواتین سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غیراخلاقی تصاویر کسی کے ساتھ کیوں شیئر کرتی ہیں۔ یوں ہمیشہ متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ صرف غیر شادی شدہ خواتین ہی اس کا شکار نہیں ہوتیں کیونکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں شوہر اپنی بیویوں کو دھمکانے کے لیے ایسی تصاویر کا استعمال کرتے ہیں۔

اپنی تصاویر کیوں شیئر کیں؟ معاشرہ متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے
اپنی تصاویر کیوں شیئر کیں؟ معاشرہ متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے

مجموعی طور پر مردوں کی اکثریت جو خواتین کو بلیک میل کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کے لیے ڈیپ فیکس بناتے ہیں، وہ یہ کام متاثرین کو دھمکانے کے لیے نہیں کرتے بلکہ مرد غیر قانونی اور فحش سائٹس پر فروخت کرنے کے لیے بھی ڈیپ فیکس بناتے ہیں۔

اس تمام صورتحال کے خواتین کی جذباتی اور ذہنی صحت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ ’میرے خیال سے ذہنی اثرات کے حوالے سے بہت کم گفتگو ہوتی ہے۔ خواتین اس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتی ہیں کہ وہ خودکشی کی جانب راغب ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ معاشرے کی وجہ سے ہوگا، متاثرین کا اس میں کوئی قصور نہیں‘۔

سزا کی شرح اور مواد ہٹانے کا نظام

ایف آئی اے نے گزشتہ سال ڈیپ فیکس اور غیراخلاقی تصاویر اپلوڈ کرنے کی 1180 شکایات درج کیں، ان میں سے صرف 12 شکایت کنندگان نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کروائی۔ ان 12 ایف آئی آرز میں سے صرف سات میں ملزمان کو سزا دی گئی۔

ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ کے مطابق سزا کی شرح کم ہونے کے دو عناصر ذمہ دار ہیں، پہلا شواہد کی کمی اور دوسرا متاثرین اور ملزمان کے درمیان سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔

تاہم وہ خواتین جو ہمت کرکے ایف آئی اے کے ذریعے قانونی کارروائی کا فیصلہ کرتی ہیں انہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سینیئر پروجیکٹ مینجر حرا باسط کہتی ہیں ’ایف آئی اے کہتا ہے کہ متاثرین ذاتی طور پر دفتر آکر اپنی شکایات درج کروائیں۔ تصور کریں کہ 15 مختلف شہروں میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے 15 دفاتر ہیں لیکن متاثرہ خواتین کا ان 15 شہروں سے تعلق نہیں ہے تو انہیں مقدمہ درج کروانے کے لیے دوسرے شہر جانا پڑتا ہے۔

’ہر خاتون سفر نہیں کرسکتی جیسے رہائش اور ٹیکسی کے کرایے جیسی مالی رکاوٹیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے گھر والوں کو اپنے سفر کا عذر پیش کرنا بھی مشکل لگتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایف آئی اے کا دفتر ان کے اپنے شہر میں بھی موجود ہو تب بھی ان میں سے اکثر کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

سائبر کرائم کے واقعے کی رپورٹ درج کروانے کے لیے سائبر کرائم ونگ انہیں خود دفتر آنے کو کہتا ہے
سائبر کرائم کے واقعے کی رپورٹ درج کروانے کے لیے سائبر کرائم ونگ انہیں خود دفتر آنے کو کہتا ہے

حرا باسط نے شواہد کی کمی کے بارے میں وضاحت کی، ’ہیلپ لائن پر ہم سے رابطہ کرنے والی خواتین کے پاس مضبوط شواہد نہیں ہوتے تو ہم انہیں ایف آئی اے میں نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ تیسری رکاوٹ ملزم کا پاکستان میں نہ ہونا ہے کیونکہ بیرونِ ملک موجود ملزمان کو گرفتار کرنے کا کوئی ٹھوس طریقہ کار نہیں ہے‘۔

زیادہ تر خواتین شکایت کنندگان کی ایف آئی آر میں پیشرفت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی سب سے بڑی پریشانی ملزمان کے پاس سے ڈیپ فیکس اور غیراخلاقی تصاویر کو ہٹانا ہوتا ہے تاکہ وہ مستقبل میں ان تصاویر کی بنیاد پر انہیں بلیک میل نہ کریں۔

ڈی آر ایف کے مطابق اگر ملزم متاثرہ شخص سے معافی مانگتا ہے اور ایف آئی اے کی ٹیم کے سامنے دوبارہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا عہد کرتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ کیس پر ’سمجھوتہ‘ کرلیا گیا ہے۔

اکثریت ملزم کو عدالت میں لے جانے کا انتخاب نہیں کرتیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے اہل خانہ کو معلوم ہو۔ وہ مردوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر عدالت آنے اور جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔

وہ خواتین جنہوں نے اپنے کیس ایف آئی اے کے پاس رجسٹرڈ نہیں کروائے لیکن انہوں نے ڈی آر ایف سے مدد طلب کی کیونکہ وہ بنیادی طور پر فحش ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اپنے ڈیپ فیکس ہٹانے کے بارے میں فکر مند تھیں۔ ڈی آر ایف لوگوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اگر ان کی غیراخلاقی تصاویر کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی ہیں تو انہیں stopnccii.org استعمال کرنا چاہیے۔

یہ ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو ایک ’ڈیجیٹل فنگر پرنٹ‘ بناتی ہے جسے ہیش کہتے ہیں تاکہ تصاویر اور ویڈیوز کو بلاک کیا جا سکے اور انہیں شیئر ہونے سے روکا جا سکے۔

حرا باسط کہتی ہیں، ’stopncii.org صرف ویب سائٹس کے لیے کام کرتا ہے۔ جبکہ ہم سوشل میڈیا ایپس جیسے واٹس ایپ، فیس بُک، انسٹاگرام اور ایکس وغیرہ پر پھیلائی جانے والی ڈیپ فیکس اور غیراخلاقی تصاویر کے معاملے میں توسیعی چینلز کا استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے ہم ان سوشل میڈیا کمپنیوں تک پہنچ کر ان تصاویر کو ہٹاتے ہیں‘۔

فحش سائٹس پر اپلوڈ ہونے والی تصاویر کو ہٹانے کا طریقہ کار الگ ہے۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود ایسے متاثرین کی مثالیں موجود ہیں جنہیں اس راستے کا انتخاب کرکے انصاف ملا۔

ایسی ہی ایک کامیاب کہانی ڈسکہ، پنجاب کی رہائشی ایک خاتون کی ہے جنہوں نے 2021ء میں ڈی آر ایف سے اس وقت رابطہ کیا جب ان کی نامناسب تصاویر واٹس ایپ گروپس میں بھیجی گئیں اور جعلی فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے ان کے اہل خانہ کے ساتھ شیئر کی گئیں۔ ڈی آر ایف کیس ایف آئی اے کے پاس لے گیا اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ زیریں اور اعلیٰ عدالتوں نے اپنا کردار ادا کیا اور مجرم کو ضمانت نہیں دی۔

لیلیٰ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کس طرح ہر شخص کی جذباتی صلاحیت مختلف ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرسکتا۔

لیلیٰ کہتی ہیں ’جب میں ماضی میں جھانکتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں قانونی مدد لے سکتی تھی۔ میں ٹراما اور صدمے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکی، جبکہ مجھے یہ بھی خدشات تھے کہ لوگ بالخصوص میری فیملی اور رشتہ دار کیا کہیں گے؟‘

وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ’ظاہر ہے میری فیملی مجھے قتل نہیں کرتی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مجھ سے ناراض ہوتے یا کچھ عرصے کے لیے مجھ سے بات نہیں کرتے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ میرا ساتھ دیتے۔ لیکن میں اُس وقت کچھ سوچنے کے قابل نہیں تھی‘۔

وہ افسوس سے کہتی ہیں کہ ’قانونی کارروائی کرنے یا شکایت کرنے سے شاید ملزم کو سزا تو نہیں ملتی لیکن پھر بھی مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ میں اس کے خلاف کھڑی ہوئی‘۔


رازداری کی غرض سے حقیقی نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں