بلوچستان کے علاقے دکی کول فیلڈ میں مسلح افراد نے جمعہ کی رات 3 کان کنوں کو اغوا کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ کان کنوں کی شناخت جوہر خان اسحٰق زئی، شاہ خان اور باچا خان یوسفزئی کے نام سے ہوئی ہے اور ان میں سے 2 کا تعلق سوات کے علاقے شانگلہ سے ہے جبکہ تیسرے کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔

لیویز فورس کی بھاری نفری اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور مسلح افراد سے مزاحمت کی تاہم فائرنگ کے تبادلے میں اغوا کار کان کنوں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

اگرچہ کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی، حکام کا خیال ہے کہ مسلح افراد کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے اور انہوں نے کان کنوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا تھا۔

کوئٹہ میں احتجاج

ہفتے کے روز کوئلے کی کان کے سیکڑوں مزدوروں نے بلوچستان میں کان کنوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے دھرنا دیا۔

یہ دھرنا ایسے وقت میں کیا گیا جب دکی کے علاقے میں کان کنوں کو اغوا کیا گیا اور ہرنائی کے علاقے زردالو میں میتھین گیس کے دھماکے کے بعد جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مظاہرین نے کان کے مالکان، ڈائریکٹوریٹ اور دیگر متعلقہ حکام کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

پاکستان ورکرز فیڈریشن بلوچستان چیپٹر کے سیکرٹری جنرل پیر محمد کاکڑ کی قیادت میں کوئلہ کان کے مزدوروں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی اور پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔

سیکرٹری جنرل پیر محمد کاکڑ کے علاوہ مزدور رہنماؤں کریم ہارپر، ملک سعید لہری اور عثمان علی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اغوا کی مذمت کی۔

ان کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ دو ماہ کے دوران مختلف واقعات میں 60 سے زائد کوئلہ کان کن جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ 3 کان کنوں کو میتھین دھماکے کے صرف 3 دن بعد اغوا کیا گیا تھا جس میں کان کے 12 مزدوروں کی جانیں گئی تھی انہوں نے کان کنوں کی حفاظت اور تحفظ کے حوالے سے مائنز ڈائریکٹوریٹ اور دیگر متعلقہ حکام کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حالیہ ہرنائی دھماکے کے ہر زخمی کو 25 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے، پیر محمد کاکڑ نے کہا کہ اس طرح کے سانحات میں ہر سال متعدد جانیں صرف اس وجہ سے ضائع ہوتی ہیں کہ مناسب حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے۔

تبصرے (0) بند ہیں