عماد وسیم کے بعد محمد عامر کا بھی ریٹائرمنٹ واپس لینے کا اعلان

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2024
فاسٹ باؤلر محمد عامر نے دسمبر 2020 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
فاسٹ باؤلر محمد عامر نے دسمبر 2020 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

پی سی بی انتظامیہ کے مبینہ ناروا سلوک کو بنیاد بنا کر 2020 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والے فاسٹ باؤلر محمد عامر نے 4سال بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ واپس لے کر ٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے لیے دستیابی ظاہر کردی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں عامر نے کہا کہ میں اب بھی پاکستان کے لیے کھیلنے کا خواب دیکھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ زندگی ہمیں ایسے موڑ پر لے آتی ہے جہاں کبھی کبھار ہمیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے اور پی سی بی کے درمیان بہت مثبت بات چیت ہوئی ہے جہاں انہوں نے احترام کے ساتھ مجھے یہ احساس دلانے کی کوشش کی انہیں میری ضرورت ہے اور میں پاکستان کے لیے مزید کھیل سکتا ہوں۔

محمد عامر نے کہا کہ اپنے خاندان اور خیر خواہوں سے مشاورت کے بعد میں آئندہ ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے اپنی دستیابی ظاہر کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ اپنے ملک کے لیے کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ملک میرے ذاتی فیصلوں سے بالاتر ہے، سبز جرسی پہننا اور اپنے ملک کی خدمت کرنا ہمیشہ سے میری سب سے بڑی خواہش رہی ہے، اور رہے گی۔

واضح رہے کہ عامر نے ریٹائرمنٹ کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب ایک دن قبل آل راؤنڈر عماد وسیم نے بھی پی سی بی کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد ریٹائرمنٹ واپس لینے کا اعلان کردیا تھا۔

محمد عامر نے یکم اگست 2019 کو کھیل کے سب سے بڑے اور طویل فارمیٹ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ون ڈے اور ٹی20 کرکٹ پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم ٹیسٹ کرکٹ سے کناری کشی کو ابھی ایک ماہ کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ عامر نے احتجاجاً انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ موجودہ مینجمنٹ کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔

نمائندہ ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عامر نے ریٹائرمنٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ ٹیم مینجمنٹ مجھے ذہنی اذیت کا نشانہ بنا رہی ہے اور میں اس صورتحال میں ذہنی دباؤ برداشت نہیں کر سکتا۔

انہوں نے خاص طور پر نام لے کر کہا تھا کہ جب تک مصباح الحق اور وقار یونس ٹیم مینجمنٹ کے ساتھ ہیں اس وقت تک میں نہیں کھیلوں گا، پرفارمنس کے باوجود مجھ پر طنز کیا جاتا ہے اور موجودہ کوچز دبے لفظوں میں کہتے ہیں عامر نے دھوکا دیا۔

عامر نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ انہیں منصوبے کے تحت سائیڈ لائن کیا گیا اور ان کے بارے میں تاثر قائم کیا گیا کہ وہ ملک کے لیے نہیں کھیلنا چاہتے۔

عامر کے کیریئر پر ایک نظر

2010 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں سزا یافتہ محمد عامر کو 36 ٹیسٹ، 61 ون ڈے اور 50 ٹی 20 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔

محمد عامر کے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 2009 میں انگلش سرزمین سے ہوا تھا اور کیریئر کی ابتدا میں ہی کم عمر میں رفتار، سوئنگ اور سیم کے ساتھ عمدہ باؤلنگ کرنے پر محمد عامر کا مستقبل تابناک نظر آتا تھا لیکن پھر 2010 میں لارڈز ٹیسٹ نے ناصرف اس نوجوان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا بلکہ پاکستان کو بھی ایک بہترین باؤلر کی خدمات سے محروم کردیا۔

24 جولائی 2010 کو لارڈز میں شروع ہونے والے میچ کے ابتدائی روز محمد عامر نے 6 انگلش بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھا کر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی 50 وکٹیں مکمل کر لیں لیکن پھر یہی میچ اس کے لیے ایک سیاہ داغ بن گیا۔

میچ کے دوران ایک برطانوی اخبار دی نیوز آف دی ورلڈ نے بک میکر مظہر مجید کی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اسپاٹ فکسنگ کرنے کی ویڈیوز جاری کر دیں۔

ایک ویڈیو میں مظہر مجید نے پیشگوئی کی کہ کپتان سلمان بٹ کی زیرِ نگرانی محمد عامر اور محمد آصف کس اوور کی کون سی گیند پر نو بال کروائیں گے۔

تینوں کھلاڑیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے لارڈز ٹیسٹ کے دوران سٹے بازوں سے بھاری رقوم وصول کرکے مخصوص اوقات میں جان بوجھ کر نو بالیں کرائیں۔

تینوں پر یہ جرم ثابت ہوا، عدالت نے جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ عامر پر پانچ سال، آصف پر سات سال اور کپتان سلمان بٹ پر دس سال کی پابندی لگادی، بعد ازاں بٹ کی پانچ اور آصف کی سزا میں دو سال کی تخفیف کردی گئی۔

محمد عامر کی 2016 میں بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی ہوئی لیکن یہ ایک بات عیاں تھی کہ ان کی باؤلنگ میں اب پہلی جیسی کاٹ نہیں رہی تھی۔

2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں انہوں نے ایک یادگار اسپیل کراتے ہوئے بھارتی بلے بازوں روہت شرما، ویرات کوہلی اور شیکھر دھاون کو آؤٹ کر کے پاکستان کو چیمپیئن بنوانے میں مرکزی کردار ادا کیا لیکن وہ انہں کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں