امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے بیجنگ میں مقیم سائبر گروپ پر قانون سازوں اور اہم جمہوری اداوں کے خلاف سلسلہ وار سائبر حملوں کا الزام عائد کیا ہے، جبکہ چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق واشنگٹن، لندن اور ویلنگٹن نے گزشتہ دہائی اور زائد عرصے سے انہیں سلسلہ وار سائبر حملے قرار دیا ہے، جو بظاہر بیجنگ کو جواب دہ ٹھہرانے کی مشترکہ کوشش نظر آتی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے 7 چینی شہریوں پر الزام عائد کیا ہے، جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایک 14 سالہ ’عالمی ہیکنگ آپریشن‘ تھا جو چین کے لیے معاشی جاسوسی اور غیر ملکی انٹیلی جنس مقاصد کی مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل لزا موناکو نے بتایا کہ مہم کے دوران 10 ہزار سے زیادہ ای میلز بھیجی گئیں، جس میں امریکی اور غیر ملکی کاروبار، سیاستدانوں، منتخب نمائندوں اور صحافیوں کو ہدف بنایا گیا۔

واشنگٹن نے بتایا کہ ایک یونٹ ’اے پی ٹی 31‘ ان حملوں کے پیچھے ہے، اور اسے چین کے طاقتور قومی سلامتی کے ادارے کی جانب سے چلایا جانے والا ’سائبر جاسوسی کا پروگرام‘ قرار دیا۔

محکمہ انصاف نے بتایا کہ ہیکرز نے ای میل اکاؤنٹ، کلاؤڈ اسٹوریج اکاؤنٹ، ٹیلی فون ریکارڈز تک رسائی حاصل کی۔

کئی گھنٹے بعد، لندن نے بتایا کہ 22-2021 میں اسی اے پی ٹی 31 گروپ نے برطانیہ میں قانون سازوں بشمول بیجنگ کی پالیسوں پر تنقید کرنے والوں کے اکاؤنٹس کو نشانہ بنایا۔

برطانیہ میں چند مہینوں کے اندر عام انتخابات ہونے کا امکان ہے،نائب وزیر اعظم اولیور ڈاوڈن نے بھی ایک چونکا دینے والا اعلان کیا کہ ’چینی ریاست سے وابستہ ادارے‘ نے ممکنہ طور پر ملک کے الیکشن کمیشن کو ’متاثر‘ کیا۔

ان کا کہنا تھاکہ قانون سازوں اور انتخابی دفتر کے خلاف مہم ’سنگین خطرہ‘ تھی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔

اولیور ڈاوڈن نے بتایا کہ اس پر اثر نہیں پڑے گا کہ لوگ کس طرح رجسٹر، ووٹ کاسٹ کرتے یا جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں۔

اسی طرح نیوزی لینڈ نے کہا کہ پارلیمنٹری کونسل آفس جو قوانین کا مسودہ تیار اور شائع کرتا ہے، اسے نشانہ بنایا گیا ہے۔

عام طور پر مغرب میں چین کے مضبوط حامی نیوزی لینڈ نے حملوں کا الزام چینی ریاست کے حمایت یافتہ گروپ ’اے پی ٹی 40‘ پر عائد کیا ہے۔

حال ہی میں منتخب ہونے والے وزیراعظم کرسٹوفر لکسن نے اعتراف کیا کہ چین پر سائبر حملوں کا الزام عائد کرنا ’بڑا قدم‘ ہے کیونکہ بیجنگ ان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

نیوزی لینڈ کے وزیرخارجہ ونسٹن پیٹر نے بتایا کہ انہوں نے سفارتکاروں کو ہدایت جاری کی ہیں کہ ’آج ہی چینی سفارتکار کے ساتھ بات کریں اور اپنی پوزیشن اور خدشات کا اظہار کریں۔

حالیہ سالوں میں مغربی ممالک سائبر حملوں کو بے نقاب کررہے ہیں اور غیر ملکی حکومتوں خاص طور پر چین، روس، شمالی کوریا اور ایران پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔

تاہم چین نے سختی سے ان الزامات پر ردعمل دیا ہے اور لندن، ولنگٹن اور واشنگٹن میں سفارت خانوں نے تردیدی بیانات جاری کیے ہیےَ

لندن میں چینی سفارتخانے نے کہا کہ برطانیہ کی جانب سے نام نہاد ’چینی سائبر حملوں‘ اور پابندیوں کا اعلان کرنا بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی الزام ہے۔

سفارت خانے کا کہنا تھا کہ چین نے کبھی سائبر حملوں کی حوصلہ افزائی یا حمایت نہیں کی۔

ولنگٹن میں بھی چینی سفارت خانے نے اسی طرح کا بیان دیتے ہوئے کہا کہ چین خود سائبر حملوں سے متاثر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں