فرانس کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زریں نے بالوں کی ساخت کی بنیاد پر کام کی جگہ پر امتیازی سلوک روکنے کے بل کی منظوری دے دی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مجوزہ قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر سیاہ فام خواتین بالوں کے انداز، رنگ، لمبائی اور اس کی ساخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی ہیں۔

قومی اسمبلی کے نمائندے اولیور سروا نے کہا کہ اس بل کے مطابق بالوں کی ساخت کی بنیاد پر کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے والوں پر جرمانہ عائد ہوگا۔

امریکا کی تقریباً 20 ریاستوں نے بالوں کی ساخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو نسل پرستی کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ایسے ہی قوانین منظور کیے ہیں۔

برطانیہ میں مساوات اور انسانی حقوق کمیشن نے اسکولوں میں بالوں کی ساخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف گائیڈلائنز بھی جاری کیے ہیں۔

سیاہ فام سروا نامی خاتون نے کہا کہ ’افریقی نسل‘ کی خواتین کو ملازمت کے انٹرویو سے پہلے اکثر اپنے بالوں کا انداز بدلنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، ایسے مشوروں کی حمایت کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو مرد ڈریڈ لاکس ہیراسٹائل رکھتے ہیں وہ بھی امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔

ایوان زیریں قومی اسمبلی میں بل کے حق میں 44 اور مخالفت میں 2 ووٹوں سے منظوری دی گئی، اس بل کی حتمی منظوری اور نافذ کرنے کے عمل کے لیے اسے بل ایوانِ بالا میں پیش کیا جائے گا۔

سروا نے ایک امریکی تحقیق کی طرف اشارہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پولنگ میں شامل ایک چوتھائی سیاہ فام خواتین نے کہا کہ انہیں نوکریوں کے لیے اس وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا کہ وہ انٹرویو میں اپنے بال کس انداز میں بناتی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں