پاکستان پیپلزپارٹی حکومت نے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کی زمین پر غیر قانونی طور پر ’چائنا کٹنگ‘ کے ذریعے قبضہ کی گئی زمین پر تعمیر کردہ گھروں، دکانوں کو ریگولرائز کرنے کا عندیہ دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چائنا کٹنگ کی گئی ان زمینوں پر پہلے ہی ہزاروں افراد چھوٹے پلاٹوں پر تعمیر کردہ مکانات میں پہلے ہی رہائش پذیر ہیں، یہ پلاٹس 120 مربع گز سے کم رقبے کے ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2015 میں تحقیقات کی تھیں کہ چائنا کٹنگ کے ذریعے سرکاری زمین پر قبضہ کیا گیا ہے، لیکن کوئی معنی خیز کارروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ ان میں عام افراد ملوث ہیں، جنہوں نے یہ پلاٹس منظم گرہوں سے خریدے تھے۔

یہ معاملہ وزیر بلدیات سعید غنی کے ساتھ کے ڈی ای انتظامیہ کی گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں بھی زیر بحث آیا۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر بلدیات نے سرکاری زمین پر قبضے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا، اور حکام کو ہدایت کی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول پالیسی مرتب کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ہزاروں مکانات اور دکانیں تعمیر ہونے کے سبب یہ تقریباً ناممکن ہے کہ زمین کو خالی کرایا جاسکے، لہٰذا عمارتوں کو ریگولرائز کرنے کے معاملے پر اجلاس میں غور و خوض کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں زیرقبضہ زمین کو جرمانہ عائد کر کے ریگولرائز کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ کے ڈی اے کے لیے کم از کم کچھ فنڈز حاصل کیا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ کے ڈی اے نے شہر کے مختلف حصوں میں 139 پارکوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کی بھی درخواست کی۔

پارکس کو این جی اوز کے حوالے کرنے کی تجویز

ذرائع نے بتایا کہ پارکس کو نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز (این جی اوز) کے حوالے کرنے کی تجویز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

دریں اثنا، کے ڈی اے ہیڈ آفس میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر بلدیات نے کہا کہ کے ڈی اے کو چاہیے کہ وہ 6 ترقیاتی اسکیمیں جو اس نے کئی سال قبل مکمل کی تھیں، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حوالے کر دے۔

انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے کو اپنی آمدنی سے زیادہ کرنے کے لیے ان ترقیاتی سکیموں کو برقرار نہیں رکھنا چاہیے۔

ایک پریس بیان کے مطابق سعید غنی نے کہا کہ کے ڈی اے کے ذیلی ادارے ٹریفک انجینئرنگ بیورو کو شہر میں گاڑیوں کے ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نئے ٹریفک سگنلز لگانے اور دیگر اقدامات کو اپنانے کے لیے تجاویز دینی چاہیے۔

ایک اجلاس میں انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے اپنے قواعد کی وضاحت کرے۔

انہوں نے ایس بی سی اے حکام کو ہدایت کی کہ وہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات کے بارے میں آگاہی مہم شروع کریں تاکہ لوگ اپنی رہائش کے لیے ایسی جائیدادیں نہ خریدیں۔

انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث بلڈرز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے جہاں ضروری ہو متعلقہ قوانین اور قواعد میں ترمیم کی جائے۔

ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر جنرل عبدالرشید سولنگی نے وزیر کو بتایا کہ ایس بی سی اے نے کراچی میں 60 اور 400 مربع گز کے پلاٹوں پر رہائشی عمارتوں کے لیے 15 دن کے اندر تعمیراتی منصوبوں کی منظوری کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے صوبائی وزیر کو بریفنگ دی کہ ایس بی سی اے کا شکایتی سیل مکمل طور پر فعال ہے تاکہ تعمیرات سے متعلق مسائل میں لوگوں کی مدد کی جا سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں