لکی مروت: دہشتگردوں کی پولیس گاڑی پرفائرنگ، ڈی ایس پی اور ایک اہلکار شہید

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2024
فائل فوٹو: فیس بک
فائل فوٹو: فیس بک
نمازجنازہ میں ڈی پی او لکی مروت بنوں و پولیس و آرمی کے آفیسرز نے شرکت کی— فوٹو: بنوں پولیس
نمازجنازہ میں ڈی پی او لکی مروت بنوں و پولیس و آرمی کے آفیسرز نے شرکت کی— فوٹو: بنوں پولیس

خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں منجیولا چوک کے قریب دہشت گردوں کی پولیس گاڑی پرفائرنگ سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) گل محمد خان گن مین سمیت شہید اور 2 زخمی ہوگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پی گل محمد خان رات گئے معمول کی گشت پر تھے کہ پہلے سے موجود نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، گولیاں لگنے سے گاڑی میں موجود ڈی ایس پی اور گن مین سمیت دو اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔

پولیس کے مطابق ڈی ایس پی گل محمد خان اور گن مین کو زخمی حالت میں سرائے نورنگ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ چکی ہے اور پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن جاری ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس کے ترجمان نے فیس بک پیج پر پوسٹ کیا کہ لکی مروت میں دہشت گردوں نے رات کی تاریکیوں میں ڈی ایس پی کی گاڑی پر حملہ کیا تھا ۔

دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کردی گئی، ڈی ایس پی گل محمد خان، کانسٹیبل نسیم گل اور گزشتہ شب بنوں میں فائرنگ کرکے قتل ہونے والے سلامت خان کی جسد خاکی کو سلامی دی گئی

نمازجنازہ میں ڈی پی او لکی مروت بنوں و پولیس و آرمی کے آفیسرز نے شرکت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے لکی مروت میں پولیس اہلکاروں پر دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے حملے میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی گل محمد خان، کانسٹیبل نسیم گل اور دیگر پولیس اہلکاروں کے بلند درجات کی دعا کرتے ہوئے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہی ہے اور دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیاں ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔

دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ

واضح رہے کہ سیکیورٹی فورسز خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم عمل ہیں۔

2024 کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 245 واقعات ہوئے جن میں عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں سمیت 432 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 370 زخمی ہوئے۔

اِن 432 اموات میں عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی 281 شہادتیں شامل ہیں۔

ان میں سے 92 فیصد اموات اور 86 فیصد حملے (بشمول دہشت گردی اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں) خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے، ان دونوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملحق ہیں۔

دونوں صوبوں کے علیحدہ طور پر اعدادوشمار دیکھے جائیں تو ان میں سے 51 فیصد اموات خیبرپختونخوا اور 41 فیصد اموات بلوچستان میں ہوئیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دیگر صوبے نسبتاً پُرامن رہے، جہاں بقیہ 8 فیصد سے بھی کم اموات رپورٹ ہوئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں