برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کی جانب سے پاکستان میں شہریوں کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کی خبر کے ایک دن بعد دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ میڈیا رپورٹس پر سرکاری بیان جاری نہیں کرتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جب صحافیوں نے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی نیا بیان جاری کرنے کے بجائے ماضی میں اسی معاملے پر سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی اور ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کی طرف سے دیے گئے بیان کا حوالہ دیا۔

گزشتہ سال 25 جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے پاکستان کے اندر دو شہریوں کے قتل کے 2 واقعات میں بھارتی ایجنٹس کے ملوث ہونے کے ’مستند شواہد‘ پیش کیے تھے۔

سیکرٹری خارجہ نے کہا تھا کہ اگرچہ ایسی متعدد مثالیں ہیں جن میں بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ہے لیکن وہ خاص طور پر دو ایسے واقعات پیش کر رہے ہیں جن میں بھارت ملوث ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

دوسری جانب یکم فروری کو اپنے ریمارکس میں ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ ماورائے عدالت اور ماورائے قتل کا کا بھارتی نیٹ ورک ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے لیے مربوط بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کے لیے بھارت کو عالمی سطح پر جوابدہ ہونا چاہیے۔

بعدازاں 5 اپریل کو برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک خصوصی رپورٹ میں دونوں ممالک کے انٹیلی جنس حکام اور پاکستانی تفتیش کاروں کے دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی حکومت نے 2020 سے اب تک پاکستانی سرزمین پر 20 افراد کو قتل کروایا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارت کی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (را) نے 2019 کے بعد سے قومی سلامتی کے نام پر مبینہ طور پر بیرون ملک قتل کرنا شروع کیے۔

تاہم بھارت نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستانی تفتیش کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’ان اموات کی منصوبہ بندی ’را‘ کے سلیپر سیلز نے کی‘ جو کسی دوسرے ملک سے کام کر رہے تھے۔

2023 میں ہوئی اموات میں اضافے کی وجہ انہی سیلز کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو جاتا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ مقامی مجرموں یا غریب پاکستانیوں کو قتل کے لیے لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں