سینیئر اداکارہ لیلیٰ واسطی نے انکشاف کیا ہے کہ جب 2008 میں ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی تو ڈاکٹرز نے انہیں اس وقت کہا تھا کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف 48 گھنٹے ہیں۔

لیلیٰ واسطی نے حال ہی میں ایک ٹی وی میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے کیریئر سمیت ذاتی زندگی پر بھی بات کی۔

انہوں نے ڈراموں میں موت کے کرداروں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار حقیقی زندگی میں بھی انہیں ڈاکٹرز نے انہیں کہا تھا کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف 48 گھنٹے ہیں۔

لیلیٰ واسطی نے پروگرام میں بتایا کہ دراصل 2008 میں انہیں کینسر ہوا تھا اور انہیں بیماری کا اس وقت پتا چلا جب بیماری بہت بڑھ چکی تھی اور انہیں ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔

اداکارہ کا کہنا تھا وہ اس وقت معمول کے مطابق گرین کارڈ کے سلسلے میں امریکا گئی ہوئی تھیں لیکن وہاں جانے کے بعد وہ بیمار ہوئی تو ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔

اداکارہ کے مطابق وہ بیمار پڑیں تو انہیں وہاں ایئر ایمبولینس کے ذریعے کینسر کے حوالے سے دنیا کے سب سے بہترین ہسپتال جان ہاپکنز لے جایا گیا، جہاں انہوں نے اپنے علاج کے فارمز پر خود دستخط کیے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ خاندان کا کوئی بھی فرد ساتھ نہیں تھا اور انہیں اس وقت خود سے زیادہ اپنے پیاروں کی پریشانی ہو رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کینسر کی تشخیص کے بعد ان کا بون میورو ٹرانسپلانٹ کیا گیا اور ان کی کیموتھراپیز شروع کی گئیں اور اس دوران ڈاکٹرز نے انہیں زندہ رہنے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دے دیا تھا۔

ان کے مطابق زندگی اور موت کے لیے جوان اور بڑھاپے سمیت کسی دور کی کوئی گارنٹی نہیں جب موت آنی ہوتی ہے تو وہ جوانی اور بڑھاپا نہیں دیکھتی۔

اس سے قبل ماضی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ ان میں بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور اس سے قبل ان میں کوئی خاص علامات نہیں تھیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ وہ معمول کے مطابق امریکا گئیں تو انہیں وہاں اچانک بہت زیادہ سردی لگنے لگی، جس کے بعد وہ ایک سہیلی کے گھر میں بے ہوش ہوگئیں، جس کے بعد انہیں قریبی کمیونٹی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں سے انہیں ایئر ایمبولینس کے ذریعے جان ہاپکنس لے جایا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایک طرف ڈاکٹرز نے انہیں زندہ رہنے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دیا تھا اور دوسری طرف جب ان میں کینسر کی شخیص ہوئی تو وہ کینسر کے حوالے سے دنیا کے سب سے بہترین ہسپتال سے صرف 15 منٹ کے فاصلے پر تھیں اور سب کچھ از خود ہوگیا۔

لیلیٰ واسطی کا کہنا تھا کہ ایک طرف خدا نے انہیں مسئلہ اور بیماری دی تو دوسری طرف اسی وقت ہی اس کا حل بھی دے دیا اور ان کا علاج کامیاب ہوا اور آج تک زندہ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں