اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے معاملات ہیں، گندم اسکینڈل پر انکوئری کب کرنی ہے؟ گندم اسکینڈل پر شاید آپ اگلی حکومت میں انکوائری کریں گے۔

’ڈان نیوز ’ کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے فیصل چوہدری کو جاری نیب کال اپ نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار اپنے وکیل علی بخاری ایڈوکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

نیب کے پراسیکیوٹر رافع مقصود نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ فیصل چوہدری نیب کی انکوائری میں شامل تفتیش ہوگئے ہیں، فی الحال گرفتاری کی ضرورت نہیں، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے درخواست نمٹا دی۔

دوران سماعت عدالت عالیہ نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے کہ چلیں یہ تو چھوٹے چھوٹے معاملات ہیں، گندم اسکینڈل پر انکوئری کب کرنی ہے؟ گندم اسکینڈل پر شاید آپ اگلی حکومت میں انکوائری کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے ’ہر قیمت پر کسانوں کے مفادات کا تحفظ‘ کرنے کا عہد کیا جبکہ وفاقی حکومت میگا اسکینڈل کی جامع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آرہی تھی۔

گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے قائد نواز شریف چاہتے ہیں کہ شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت اس میگا اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف کسی بھی سیاسی اثر کی پرواہ کیے بغیر ’بلاامتیاز‘ کارروائی کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے ماڈل ٹاؤن دفتر میں ہونے والے اجلاس کے دوران تجویز دی گئی تھی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مبینہ اسکینڈل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے، تاہم شہباز حکومت نے بتایا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ زیر غور نہیں۔

وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ڈان کو بتایا تھا کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ (نیب یا ایف آئی اے سے گندم اسکینڈل کی تحقیقات کرائی جائیں)، ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس اسکینڈل کا تعلق سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت سے ہے، لہذا شہباز شریف انتظامیہ ’بہت احتیاط سے چل رہی ہے‘۔

ان سے پوچھا گیا تھا کہ حکومت نیب کو شامل کرنے سے کیوں گریزاں ہے کیوں کہ نئے قوانین کے مطابق مبینہ اسکینڈل 50 کروڑ روپے سے زائد ہے تو سابق نگران وزیراعظم کو کیوں طلب نہیں کیا جارہا، اس سوال کا وزیر اطلاعات نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

اس پس منظر میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ شہباز شریف حکومت نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد 98 ارب روپے کی گندم درآمد کی، لیکن سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ شہباز کابینہ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا، تاہم حکومتی انکوائری کمیٹی مبینہ طور پر اس درآمد کی بھی تحقیقات کر رہی ہے۔

اسی طرح وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے سابق نگران حکومت کو گندم کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں۔

2 روز قبل میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ انوار الحق کاکڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے طلب کیا تھا، جس کے بعد کمیٹی کے سربراہ نے وضاحتی بیان جاری کیا، کامران علی افضل نے کہا کہ کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی کو طلب نہیں کیا، تاہم سابق نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کو مبینہ طور پر کمیٹی نے طلب کیا ہے۔

سابق نگران وزیراعظم کی مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے ساتھ گندم بحران کے معاملے پر بحث ہوئی تھی، حنیف عباسی نے مبینہ طور پر گندم اسکینڈل کے لیے انوار الحق کاکڑ کی سرزنش کی جبکہ سابق نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر وہ ’فارم 47‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما عوام کے سامنے آنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔

پی ٹی آئی بھی اس معاملے میں کود پڑی تھی اور انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی کے درمیان ہونے والے جھگڑے کی روشنی میں گندم اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا مطالبہ کیا تھا۔

دریں اثنا، ترجمان پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی کے انکشافات آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہے، اور اس نے بہت سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں