شام میں تباہی کا شکار، دیر الزور کا علاقہ۔ فائل تصویر رائٹرز

کم از کم اس وقت شام اور خطے میں پھیلتے تنازعات بُلند آواز سے ایک واضح پیغام دے رہے ہیں: سفارت کاری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔

امریکی جنگی آلات اپنی مہلک قوت کے بل پر، سنگین تباہی کے تازیانے  برسانے کی خاطر، ایک ایسے ملک کے محاذ پر بالکل تیار کھڑے تھے کہ جہاں گزشتہ ڈھائی برس کی خانہ جنگی میں ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاک، بے شمار زخمی اور معذور ہوچکے، ساتھ ہی بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہیں اور ان کے پیچھے باقی رہ گیا ملبے کے ڈھیر میں بدلتا ترقیاتی ڈھانچہ۔

اس طرح کے ملک کو ہدف بنا کر حملہ کرنا، بعثت عراق پر مسلط کی گئی جنگ کے مقابلے میں شاید زیادہ بڑا المیہ ہوتا لیکن اس سے پہلے ہی معاہدہ طے پایا اور دنیا نے سکھ کا سانس لیا۔ سفارتی کامیابی کا کریڈٹ ہم کسے دے سکتے ہیں؟ بلاشبہ یہ اعزاز روس کو حاصل ہے کہ اس نے اہم اورمرکزی کردار ادا کرتے ہوئے امریکی حملے کو رکوادیا۔

اس کے ساتھ ہی، بیجنگ اور ماسکو روزِ اول سے ہی شام میں غیر ملکی سیاسی اور فوجی مداخلت کی مخالفت کرتے ہوئے، مسئلے کے سفارتی حل کی ضرورت پر زور دے رہے تھے لیکن صرف یہ تنہا ماسکو ہی نہیں جس کے سبب امریکا ہچکچایا۔

 عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں پر امریکی رائے عام خواہ کچھ بھی رہی ہو لیکن شام میں غلط فوجی مہم جوئی کے وہ بھی سخت مخالف تھے، یہاں تک کہ کانگریس جو ایک دہائی قبل عراق پر حملے کی سخت حامی اور اس جنگ پر دسترس رکھتی تھی، وہاں بھی شام پر حملے کی حمایت کا فقدان رہا۔

طویل عرصے تک انکار کے بعد، آخر شامی حکومت نے اپنی تحویل میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا اعتراف کر ہی لیا۔ شام نے متعلقہ معاہدوں پر دستخط کیے، ساتھ ہی وہ ایک ہزار ٹن کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کی خاطر انہیں اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دینے پر بھی رضامند ہوگیا۔ شام کے وزیرِ مفاہمت علی حیدر نے اسے فتح قرار دیتے ہوئے، روس کا شکریہ ادا کیا ہے۔

تاہم عالمی ادارے کی نگرانی میں کیمیائی ہتھیاروں کا تلف کیے جانا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے، جس کے لیے بہرحال شامی حکومت کا تعاون درکار ہوگا۔

روس نے جنیوا میں جو کردار ادا کیا، اس کے بعد صدر بشارالاسد کے پاس معاہدے پر دستخط کے سوا اور کوئی راستا بچا ہی نہیں تھا۔

اب اگر شام کے معاملے پر روس اور امریکا اتفاقِ رائےکرسکتے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ مشترکا کوششوں کے ذریعے اسرائیل ۔ فلسطین امن مذاکرات دوبارہ شروع کرا کر، انہیں کسی معاہدے تک نہ پہنچا سکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں