ایڈورڈ سنوڈن — فائل فوٹو --.
ایڈورڈ سنوڈن — فائل فوٹو --.

کیا میڈیا نے ناقابل یقین کہانیوں یا غیر روائتی موضوعات کو نشر کرنے کے سلسلے میں کوئی اصول وضع کرلیا ہے جس طرح وہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی کوشش کررہا ہے؟

اس بات کا کوئی آسان بلکہ درست جواب ابھی تک تو نہیں ہے-

مغربی میڈیا میں اس وقت جو بحث جاری ہے وہ ان انکشافات کی نشریات کے بارے میں ہے جو سابق سی آئی اے کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے کئے ہیں جو الیکٹرانک دخل اندازی اور خفیہ طریقوں سے سن کرحاصل کئے گئے تھے--- نہ صرف مشتبہ دہشت گرد/ گروہوں کے خلاف  بلکہ دوست ملکوں کے خلاف بھی کئے گئے تھے۔

کیا حکومتیں خفیہ طور پردوسروں کی باتیں سننے میں حق بجانب تھیں اور کیا میڈیا کا بھی ان کو نشر کرنا صحیح عمل تھا؟

یقیناً دہشت گردی میں ملوث مشتبہ گروہوں کی کارروائیوں سے خبردار رہنے کے لئے اور ان کے دھماکوں کے پروگراموں اور قتل وغارت گری سے بروقت بچنے کے مقصد سے ان کی باتوں کو خفیہ طور پر سننے میں کوئی حرج نہیں ہے- لیکین جیسا کہ سنوڈن کے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومتیں بھی الیکٹرانک کان کا استعمال کرتی ہیں، مثال کے طور پر، تاکہ وہ تجارتی مذاکرات کے لئے بہتر طور پر تیار رہیں-

ایسے مسائل جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ انسان کو اپنی نجی زندگی میں کتنی پرائیویسی درکارہے، خطرات کے پس منظرمیں، اور اس کا جواب ہر بارعوامی رائے دہی کی صورت میں ایک ہی جیسا ملتا ہے کیونکہ اس حق کا تعلق آزادی رائے سے جڑا ہوا ہے-

لیکن کئی سیکیورٹی کے ماہرین، پرانے خیالات کے مبصرین اور میڈیا کے کچھ حصّوں کا خیال ہے کہ ان اخبارات نے جنہوں نے اسنوڈن کے انکشافات پر مبنی یہ خبریں شائع کی ہیں انہوں نے نیشنل سیکیورٹی کو نقصان پہنچایا ہے اور دشمن نگرانی کی حد کے مطابق اس کی وجہ سے ہشیار ہوگئے ہیں- میں کہتا ہوں کہ یہ نری بکواس ہے-

امریکہ، اگر ایک جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے برازیل کے صدر کی باتیں جو وہ مکسیکو کے صدر سے کررہے تھے، خفیہ طریقے سے سنتا ہے تو اس سے وہ اپنے آپ کو کسی دہشت گردی کے خطرے سے بہتر طریقے سے کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے؟ اس کے برخلاف یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ حرکت غیر شائستہ اور دو آزاد ملکوں کے دو قائدین کے نجی حقوق پر حملہ ہے-

گارڈین نے دنیا بھر کے جانے مانے 20 ایڈیٹروں/ سابق ایڈیٹروں کے ساتھ بات کی اور تقریباً سبھی نے اس بات سے اختلاف کیا کہ گارڈین نے اسنوڈن کے انکشافات کو چھاپ کر کسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے-

ہاں گارڈین کے ایڈیٹروں نے سینکڑوں گھنٹوں کی محنت کے بعد اس انبار میں سے چھانٹ کر صرف وہی چیزیں نکال کر شائع کیں جن سے عوام کا مفاد وابستہ تھا اور کسی ملک یا فرد کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ تھا- دنیا بھر کے مقتدر ایڈیٹر صاحبان نے اس بات کو سراہا اور اخبار کے اس حق کو تسلیم کیا کہ اسے اپنے قارئین کو ہر بات سے باخبر رکھنے کا حق ہے کہ حکومت عوام کے نام پر کیا کیا کررہی ہے-

یہ بحث تو ابھی ہفتوں چلیگی بلکہ شائد مہینوں- اور اس کا زور بڑھتا ہی جائیگا جیسے جیسے نئے نئے انکشافات نئے نئے ذریعوں سے منظر عام پر آتے جائینگے- ایک سوال جو میڈیا کے مبصرین کے مطابق اس پورے واقعے کا مرکزی نکتہ رہیگا وہ احتساب کا ہے، یہ نہیں کہ کوئی ریاست کیا کرتی ہے اور کیا نہیں کرتی ہے بلکہ یہ کہ کیا وہ اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہے یا نہیں، خصوصاً اپنے عوام کے سامنے-

ہم پاکستان میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ یہاں احتساب کا رواج نہیں ہے- ایک مرتبہ کسی انٹیلیجنس ادارے کا "قومی مفادات اورسیکیورٹی" کا نام لینا کافی ہے، دیکھ لیں کہ بلوچستان میں قومی مفادات اورعسکریت پسندوں کے لئے ہماری تباہ کن حمایت  کے نام پر کیا کچھ ہورہا ہے- کیونکہ اس سے"ہماری نیشنل سیکیورٹی مضبوط تر ہوتی ہے"-

آپ کسی ایسے عمل پرسوال کرلیں جو اس زمرے میں آتی ہو تو آپ کی حب الوطنی خطرے میں پڑ جائیگی- اس کے علاوہ آپ کو عوامی سطح پر بدنام کیا جائیگا اگرچہ کہ شائد آپ کو کبھی عدالت نہ جانا پڑے، کیونکہ حقیقتاً آپ کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں ہے-

جب میں نے 1994میں بی بی سی کی ملازمت کی تو شمالی آئرلینڈ کی بغاوت کی خبریں دینے میں مجھے تھوڑی سی دقت ہوئی- آئرش ریپبلکن آرمی ایک "دہشت گرد" تنظیم تھی لیکن سن فائن، جو ان کا سیاسی بازو تھا، کے لیڈروں جیسے جیری آڈمز اور مارٹن مکگنیس کے بیانات بھی دوسرے ایکٹروں کی آواز میں سنائے جاتے تھے-

دوسری پابندیاں اس بات کی یقین دہانی کرتی تھیں کہ دہشت گرد عوامل کو کم سے کم پبلسٹی ملے اور ان کا جواز بھی تھا- سب سے پہلا رہنما اصول یہ تھا کہ دہشت گرد، یا جیسا کہ بی بی سی ورلڈ سروس جو ان کو "عسکریت پسند" کہتی تھی، کو اپنے خیالات اور نظریات کا پرچار کرنے کے لئے، خصوصاً بغیر کسی مضبوط چیلنج کے، کوئی پلیٹ فارم نہ مہیا کیا جائے-

بی بی سی کو سات سال پہلے چھوڑنے کے بعد، مجھے اپنے زمانے کے بی بی سی کے کچھ ادارتی مباحثے اس وقت یاد آئے جب میں نے بی بی سی اردو کا حالیہ اسکوپ دیکھا- تحریک طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود کا انٹرویو جس میں انہوں نے اپنا پہلا عوامی ردعمل اے پی سی کانفرنس اور فوج کی حمایت کردہ مذاکرات کی پیش کش کے جواب میں دیا-

میں تو چاہتا تھا کہ "امیر صاحب" کے بعض دعووں پر سخت جرح کی جاتی جیسے،  "ہم کبھی مسلمانوں کا قتل نہیں کرتے ہیں" اور کبھی "مسجدوں پر حملے نہیں کرتے ہیں" جبکہ ٹی ٹی پی نے ماضی میں متعدد بار ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی- یا پھر وہ سوال چھوڑدیا جاتا کہ ٹی ٹی پی کا "ہندوستان کے ساتھ جنگ کے موقع پر کیا رول ہوگا".

لیکن یہ ایک بہت مشکل صورت حال تھی جس میں رپورٹر کا اپنا تحفظ خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ میں اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ رپورٹر کو ہدایات اور انٹرویو کو ایڈٹ کرنے والا شخص کوئی دوسرا تھا- یعنی دوسری آنکھیں اور کان بھی نظرثانی کیلئے موجود تھے-

ایک اسکوپ کو نشر کرنے کی خواہش --- ٹی ٹی پی کے قائد کا حکومت کے مذاکرات کی پیشکش کے بارے میں  پہلا ردعمل --- اور ایک ایسے شخص کو پلیٹ فارم مہیا نہ کرنے کے مطالبات جو ہزاروں معصوم لوگوں کے قتل کا ذمہ دار ہو جب کہ سخت سوالات ایک رفیق کار کو خطرے میں بھی ڈال سکتے ہیں، ان سب باتوں میں توازن قائم رکھنا یقیناً ایک پریشان کن کام رہا ہوگا-

میڈیا باخبر رکھتا ہے، تعلیم بھی دیتا ہے اور تفریح بھی بہم پہنچاتا ہے- میڈیا کی رسمی اجارہ داری کو سوشل میڈیا کی طرف سے مختلف چیلینجز ہیں- ایمان داری سے دیکھنے کی بات یہ ہے میڈیا اپنا رول کتنی کامیابی سے نبھاتا ہے چاہے اصول کچھ بھی ہوں، مثلاً یہ بات کہ بی بی سی کے رپورٹر کے سوالات سخت تھے یا نہیں  ٹی ٹی پی کے قائد کے جواب کے تناظرمیں بے اثر ہو جاتی، جو ویسے تو انٹرویو کے دوران مذاکرات کے حوالے سے خاصے معقول نظر آئے، جب انہوں نے ملک کے خلاف جنگ کی بات کی- ان کے نظریات سخت گیری کے حامل تھے-

ٹی ٹی پی صرف پاکستان کی امریکہ سے قربت کی وجہ سے پاکستان سے جنگ نہیں کررہی بلکہ یہ جہاد غیرملکی فوج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد بھی جاری رہیگا، یہ ان کا کہنا تھا، اور صرف شریعت کے نفاذ اور ملک میں "کفری نظام" کے خاتمہ کے ساتھ ختم ہوگا.

جہاں تک سنوڈن کے انکشافات کا تعلق ہے، تھوڑے عرصے کے بعد اس کی حیثیت چھوٹی موٹی شرمندگیوں سے زیادہ نہیں رہیگی، جلد ہی سب بھول جائینگے اور حالات معمول پر آجائینگے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں