وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف صرف پانچ مرتبہ ہی قومی اسمبلی میں نظر آئے۔ — اے ایف پی فوٹو
وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف صرف پانچ مرتبہ ہی قومی اسمبلی میں نظر آئے۔ — اے ایف پی فوٹو

سیاست دان چاہے کسی بھی برانڈ سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ، شاذ و ناذر ہی کھری بات کرتے ہیں۔

اس کی ایک مثال پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر چوہدری جعفر اقبال ہیں جو جمعرات کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ایک بیان سے جڑے تنازعے پر سینیٹ کا بائیکاٹ کرنے والے اپوزیشن ساتھیوں پر برس پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ناصرف پارلیمانی قوانین اور آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے بلکہ 'وہ وزیر اعظم نواز شریف کی پارلیمنٹ اور جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کی کوششوں کو پٹری سے اُتارنے کے ایک خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں'۔

اب یہ تو اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ کس طرح ان الزامات کا دفاع کرتی ہے، لیکن پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ پانچ مہینے پہلے وزیر اعظم کی کرسی سنبھالنے کے بعد نواز شریف صرف پانچ مرتبہ ہی قومی اسمبلی میں نظر آئے اور سینیٹ کو تو ان کا دیدار ہی نصیب نہیں ہوا۔

غیر حاضری یہ ٹریک ریکارڈ ن لیگ کا منہ چڑھا رہا ہے، جو ناراض اپوزیشن سینیٹرز کو کہتے نہیں تھکتی کہ 'سیاسی اختلافات ختم کرنے کی صحیح جگہ پارلیمنٹ ہے نہ کہ سڑکیں'۔

آج کل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ملکی صورتحال پر بحث جاری ہے اور ان طوفانی اجلاسوں میں نواز شریف کی غیر حاضری بہت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نواز شریف درپیش سنجیدہ حالات پر معمول کے ایجنڈے کو منسوخ کرنے والی قومی اسمبلی کو امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے، لیکن ان کے نمائندہ خاص چوہدری نثار ایوان میں الزامات لگا رہے ہیں کہ امریکا نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن بات چیت کو سبوتاژ کر دیا ہے۔

ایسی صورتحال میں پارلیمنٹ میں نواز شریف کے خیالات سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہو سکتے تھے۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے سربراہ سید خورشید شاہ نے منگل کو درست کہا کہ وزیر اعظم کی مسلسل غیر حاضری پر لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ آیا حکومت واقعی ملک اور ان کے جذبات کی قدر بھی کرتی ہے یا نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی حکومتی بنچوں سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وزیر اعظم اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اسمبلی کو آگاہ کریں گے کہ حکومت نے عسکریت پسندی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے کیا سوچا ہے۔

ان کا کہنا تھا: لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ جب وزیر اعظم نے ڈرون حملوں کا معاملہ اٹھایا تو اوباما کا ردعمل کیا تھا۔

وزیر اعظم پہلی مرتبہ جون میں حلف اٹھانے کے لیے قومی اسمبلی میں آئے تھے۔

اس کے بعد انہوں نے سپیکر اور بطور پارلیمانی لیڈر اپنے الیکشن کے موقع پر اسمبلی اجلاس میں شرکت کی۔

اس کے بعد وہ بجٹ، رخصت ہونے والے صدر آصف علی کے پارلیمنٹ سے مشترکہ اجلاس اور ان کے جانشین کو ووٹ دینے کے موقع پر اسمبلی میں نظر آئے۔

انہوں نے اب تک محض دو مرتبہ قومی اسمبلی سے خطاب کیا۔ ایک مرتبہ پانچ جون کو وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اور پھر دو ہفتوں بعد ایوان کو یہ بتانے کے لیے کہ ان کی حکومت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلائے گی۔

نواز شریف نے اب تک سینیٹ کو اپنی حاضری کا شرف نہیں بخشا۔ اپوزیشن سینیٹرز ان دنوں ایوان بالا میں نواز شریف کی نمائندگی کرنے والے وزیر داخلہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ان کے احتجاج کی وجہ چوہدری نثار کا ڈرون حملوں سے متعلق ایک بیان تھا جو انہوں نے وزارت دفاع اور امور خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھنے والے نواز شریف کی طرف سے گزشتہ ہفتے دیا۔

چوہدری نثار نے سینیٹ کو بتایا کہ 2012 کے بعد سے امریکی ڈرون حملوں کا ہدف صرف جنگجو رہے ہیں اور اس عرصے میں کوئی معصوم شہری نہیں مارا گیا۔

اس پر اپوزیشن سینٹرز نے چوہدری نثار کو مقامی ذرائع اور عالمی اداروں کے اعداد و شمار کی مدد سے چیلنج کرتے ہوئے ان سے اپنا بیان واپس لینے اور غلط معلومات فراہم کرنے پر معافی کا مطالبہ کیا۔

ظاہر ہے چوہدری نثار ایسا کرنے والے نہیں تھے، جس کے ردعمل میں سینیٹ میں اکثریت کی حامل اپوزیشن نے احتجاجاً بدھ کو پارلیمنٹ کے باہر سڑک پر سینیٹ کا اجلاس سجایا۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم اگر سینیٹ میں آتے تو صورتحال اس قدر خراب ہونے سے بچ جاتی۔

اب حکومت ڈرون حملوں میں ہلاکتوں سے متعلق نئے اعداد و شمار پیش کرے یا نہیں، حقیقت یہ ہے وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں بظاہرعدم دلچسپی سیاسی حلقوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں