السٹریشن --.
السٹریشن --.

یہ ایک فارم کا منظر نامہ ہے۔ کچھ بھیڑیں گِدھوں کی جانب سے بھیڑیوں پر حملے کا رونا رو رہی ہیں۔ پاس کھڑی گائیوں کے لیے یہ سارا معاملہ عجیب سا ہے لیکن بھیڑیں ٹس سے مس نہیں ہو رہیں۔

بھیڑوں نے طنزیہ کہا 'بھلا یہ کیا جانیں، یہ تو گائیں ہیں'۔

دوسری جانب، اس مزاحیہ فارم کے مرکز میں موجود بکریوں کی سردار --جو خود کو شیر کہلانے پر مصر ہے-- نے   منمناتے ہوئے (معاف کیجیے دھاڑتے ہوئے) حملہ آور گِدھوں کی مذمّت کی اور کہا 'ان کی اتنی ہمت کیسے ہوئی'!

اس پر ایک لومڑی نے ایک گائے سے سرگوشی میں کہا 'اس کا خاندان انہی گِدھوں کے مسکن میں ہے، اس سے کہو کہ یہ اپنے خاندان کو واپس فارم میں تو بلائے'۔

گائے نے سر ہلایا اور وہ شیر نما بکری کی جانب چل پڑی۔ اس سے پہلے کہ وہ سوال پوچھتی شیر نما بکری  نے جھٹ سے انکار کر دیا۔

لیکن حضور۔۔۔۔، گائے کا جملہ ادھورا رہ گیا۔

گائے نما بکری ایک مرتبہ پھر 'دھاڑی' اور گائے کو لعن طعن کرتے ہوئے اسے گدھوں کا ایجنٹ قرار دے دیا۔

اسی فارم میں ایک جگہ پر بھیڑوں کی سربراہ عزت اور خود مختاری کی باتیں کر رہی ہے۔

جس پر لومڑی نے دوسری گائے سے کہا: اسے کہو کہ کافروں کی سرزمین پر چرنے والے اپنے میمنوں کو فارم واپس لائے۔

گائے دم ہلاتی چل پڑی۔

بھیڑ خان نے گائے کی بات سنتے ہی  جھٹ سے انکار کیا اور اسے کہا کہ 'میں کہوں گا اور تم سنو گی'۔

اس پر لومڑی زور سے ہنسنے لگی تو غصے سے بپھری بھیڑ خان نے اسے 'فاشسٹ' کہہ دیا۔

بھیڑ خان نے کہا: دراصل بھیڑیوں کو غلط سمجھا گیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے ہیں اور انہیں ہمارے دشمنوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اس پر لومڑی نے ایک مرتبہ پھر ہنس کر کہا: تو اس کا مطلب ہے کہ گدھ ہمارے دشمنوں کے ایجنٹوں پر حملے کر رہے ہیں؟

بھیڑ خان نے پہلے تو ہاں میں سر ہلایا لیکن جھٹ ہی اپنی تصیح کرتے ہوئے 'نہیں' کہہ ڈالا۔

پھر وہ کہنے لگی ' ہاں بھی اور نہیں بھی'۔

اس پر پاس ہی کھڑی گائیوں نے بھیڑ خان سے پوچھا کہ 'آپ نے ہاں اور ناں میں جواب دیا ہے، پلیز ہمیں سمجھائیں کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم  الجھ گئی ہیں'۔

اس پر بھیڑ خان نے کہا، 'تمھیں کیسے سمجھ آئے گی تم تو گائیں ہو'!

اس پر گائیوں نے احتجاج بھرے لہجے میں کہا: لیکن ہم نے تو آپ کو ووٹ دیا ہے!

اس پر بھیڑ خان نےکہا 'ہاں تم لوگوں نے مجھے اس فارم کے ایک کونے میں ہی ووٹ دیے جبکہ اس شیر نما بکری کو فارم کے سب سے سرسبز علاقےمیں جتوا دیا'۔

لومڑی نے ایک مرتبہ پھر سرگوشی میں کہا: لگتا ہے کہ اس بھیڑ کو اب تک الیکشن کی سچائی سمجھ نہیں آ سکی.

لیکن اس بھیڑ اور شیر نما بکری میں فرق ہی کیا ہے؟ لومڑی یہ سوچنے میں مگن تھی، جبکہ شیر نما بکری اور بھیڑ خان ایک ساتھ کھڑے فارم کے دوسرے جانوروں سے کہہ رہے تھے کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے دہرائیں: دو پروں والے گدھ برے جبکہ چار پاؤں والے بھیڑیے اچھے۔

اس پر ایک گھوڑے نے مداخلت کرتے ہوئے پوچھا: معاف کیجیئے گا حضور والا، گدھ بظاہر برے لگتے ہیں لیکن کیا ان کا نشانہ بننے والے بھیڑیے فارم کی مرغیوں، بکریوں اور بھیڑوں کو کھا نہیں رہے؟

'تمیں غلط معلومات دی گئی ہیں'، بھیڑ خان نے گھوڑے کو جواب دیا۔

'فارم اجاڑنے والے بھیڑیے ہمارے نہیں، یہ برے ہیں۔ ہمارے والے بھیڑیے تو سبزی خور ہیں'۔

شیر نما بکری نے اس دعوی سے اتفاق کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی: ہاں۔ لیکن پھر بھی ہم شیروں کو اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

بھیڑ خان نے ہنستے ہوئے کہا: تم کب سے شیر ہو گئے؟ تم بکری ہو اور تمھاری گردن کے بال اصلی نہیں بلکہ وگ ہے۔

شیر نما بکری نے 'دھاڑتے' ہوئے کہا: تمھاری ہمت کیسے ہوئی؟

'اس مشکل گھڑی میں خدارا ہم سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے'۔

لیکن کس کے خلاف متحد ہوں؟ ایک گھوڑے نے سوال داغا۔

'ظاہر ہے۔ گدھوں کے خلاف'، شیر نما بکری نے جواب دیا۔

'اور دشمن بھیڑیوں کے خلاف بھی'، بھیڑ خان نے اضافہ کرتے ہوئے کہا۔

'لیکن ہمیں فرق کیسے معلوم ہو گا کہ کون سا بھیڑیا دوست اور کون سا دشمن ہے، کیونکہ وہ سب ایک جیسے دکھتے ہیں اور ان کے دانت بھی ملتے جلتے ہیں؟ ایک گائے نے پوچھا۔

بھیڑ خان نے جواب دیا 'تمھیں فرق سمجھ نہیں آئے گا، لیکن ہمیں تو معلوم ہے'۔

اس پر لومڑی نے کہا: شائد ان سب بھیڑیوں میں کوئی فرق نہیں، لیکن اگر آپ کہتے ہیں تو، چلیں مان لیتے ہیں۔

بھیڑ خان ایک مرتبہ پھر طیش میں آگئی اور لومڑی کو لبرل فاشسٹ کہہ ڈالا۔

شیر نما بکری نے بھی منمناتے ہوئے (معاف کیجیے) دھاڑتے ہوئے لومڑی کو سبوتاژ کرنے والا کہا۔

اس کے بعد بھیڑ خان اور شیر نما بکری دونوں فارم میں اپنے اپنے ٹھکانوں پر آرام کرنے چلی گئیں۔

کچھ دنوں بعد، یہی گائیں، گھوڑے اور مرغیاں  شش و پنج میں ہی مبتلا نظر آئیں۔

ایک گھوڑے نے ایک 'سوشل' بھیڑ سے درخواست کی کہ وہ اس کا رابطہ بھیڑ خان یا شیر نما بکری سے کرا دے۔

جس پر 'سوشل' بھیڑ نے کہا 'سوری، وہ دونوں ہی فارم پر موجود نہیں'۔

کہاں ہیں وہ؟ گھوڑے نے پوچھا۔

'دونوں ہی اپنے بچوں سے ملنے گئی ہوئی ہیں، جواب آیا۔

گھوڑے نے حیران ہو کر پوچھا: گِدھوں کے مسکن میں؟

سوشل بھیڑ نے کہا: ہاں۔ ان کے بھی اہل خانہ ہیں، آپ کو ان کی نجی زندگی کا احترام کرنا چاہیے۔

لیکن حیران و پریشان گھوڑے نے کہا: تو پھر گِدھوں کے خلاف ان کے غصّے کا کیا؟

کیا تم لومڑی سے گپ شپ کرتے ہو؟ سوشل بھیڑ نے گھوڑے سے پوچھا۔

جواب آیا: نہیں۔

سوشل بھیڑ نے کہا: اچھا ہے۔ میرے پیچھے پیچھے دہراؤ۔۔۔ 'دو پروں والے گِدھ برے جبکہ چار پاؤں والے بھیڑیے اچھے'۔

لومڑی ایک مرتبہ پھر ہنس پڑی اور گھوڑے سے پوچھنے لگی: کیسا محسوس کر رہے ہو؟

جواب آیا: بالکل گدھے جیسا!


 ندیم ایف پراچہ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں

تبصرے (3) بند ہیں

Maryam Javaid Nov 10, 2013 01:38pm
Sir I am a big fan of yours, always love to read your blogs, but this is so cool and so inspiring that I could not stop myself of wrting this comment, please keep writing, May Allah bless you ,
Ali Nov 11, 2013 02:12am
Sums up all the mess we are in ...
M. Taqqi syed Nov 24, 2013 10:47am
weldon critical artical according to nowaday situation that created by PTI