۔—تصویری خاکہ - نادر صدیقی / ڈان ۔ڈام

نویں جماعت میں داخلے پر طالبعلم یا اس کے والدین کو ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے: میٹرک میں سائنس رکھیں یا آرٹس۔ مشکل یہ ہے کہ اگر آرٹس رکھیں تو بھی جنرل سائنس پڑھنی ہو گی اور اگر سائنس رکھ لی تو ظاہر ہے سائنس کی بہت سی کتابیں پڑھنا پڑیں گی۔

سرکاری سکولوں کے طالبعلم اپنی اور اپنے والدین کی سہولت کے لیے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی کو ’بڑی سائنس’ کہتے ہیں۔ اور کیونکہ ان مضامین میں پاس ہونا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے، اس لیے ’بڑی سائنس’ عام بول چال میں اصطلاح کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے اور اس کا مطلب ہے دشوار ترین یا ایسا کام جو ’اپن سے تو نہیں ہونے والا’۔

سکول میں سائنس کے ڈسے باقی ساری عمر آرٹ، بلکہ ہر قسم کی تعلیم کو بھی پھونک پھونک کر برتتے ہیں۔ سائنس کے ساتھ ہمارے قومی تعلقات کی بنیاد یہی خوف اور بے یقینی ہے جس کے باعث ہم کوئی بھی چیز ایجاد کرنے کی بجائے اسے خرید کر استعمال کرنا زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں۔

اور اگر مشین پیچیدہ قسم کی ہو، یعنی بڑی سائنس سے چلنے والی، تو ہم اسے خود سے چلا بھی نہیں سکتے، مثال کے طور پر پی آئی اے کے ہوائی جہاز اور ریلوے کے انجن لے لیں۔ بلکہ رہنے دیں، آپ لے کر کیا کریں گے، وہ تو بڑی بڑی تنخواہیں لینے والوں سے نہیں چلتے۔

ہمارے قومی اداروں کی ذمہ داری ان جہازوں اور انجنوں کی خرید، اور اس سے ملنے والے کمیشن کی آپس میں منصفانہ تقسیم تک محدود ہے، جسے جہاز اڑتا دیکھنے کا شوق ہے وہ امریکہ سے پائلٹ لے آئے اور جسے ٹرین کی سیر کرنی ہے وہ چین سے ڈرائیور لے آئے۔

لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ خیر کمیشن لینے کا وقت تو نہیں بدلا، لیکن سائنس سے ڈرے سہمے ہمارے لوگ اب سینہ تان کر میدان میں نکل رہے ہیں، پرانی مشینوں کو خرید نئی نئی ایجادات سے اپنا اور پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں، دنیا کو وہ سب دے رہے ہیں جس کا اس نے تصور تک نہیں کیا تھا۔

ابھی کل کی بات ہے تیل سے آگ جلائی جاتی تھی اور پانی سے بجھائی جاتی تھی۔ اور یہاں ایک باکمال پاکستانی نے پانی کو ایندھن میں بدل دیا۔

جی ہاں، ساری دنیا ایندھن کی کمیابی کا رونا رو رہی ہے اور وقار احمد آغا نے پانی سے کار چلا کر مغربی سائنسدانوں کو جو ہر سال اربوں ڈالر تحقیق کے نام پر اجاڑ دیتے ہیں، شرم سے پانی پانی کر دیا ہے۔ بھلا اس میں تعلیم اور تحقیق کہاں سےآ گئی؟ بھئی پانی سے کار چلانا مقصد تھا نا؟ لو چلا کر دکھا دی۔

آغا جی نے بی ٹیک کی اعلیٰ تعلیم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی خیرپور سے حاصل کی جہاں کی ڈگری کو بیرونی دنیا تو کیا خود ہمارا ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی تسلیم نہیں کرتا۔

لیکن اپنی محنت، لگن اور پاکستان اور اسلام سے سچی محبت کی بدولت اس نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی اور پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ تعلیمی پسماندگی، سائنسی معذوری اور ذہنی بے چارگی کسی سائنسی ایجاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔

یہ کارنامہ انجام دے کر آغا نے بہت سے دوسرے پاکستانیوں کو بھی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنی کم علمی کو خاطر میں نہ لائیں، اور جو ایجاد کرنا ہے کر ڈالیں۔

اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ آغا کی ایجاد کے سامنے آتے ہی، پنجاب سے ایک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی کار کو پانی سے چلانے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔

ڈاکٹر چوہدری غلام سرور کے دو ہی شوق رہے ہیں: معیشت کی تعلیم لینا اور دینا، اور اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھنا۔ ظاہر ہے کہ ان دو اشغال کا منطقی نتیجہ ایک سائنسی ایجاد کی شکل میں ہی نکل سکتا تھا۔

انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں کہ واٹر کٹ کی ایجاد میں وہ آغا سے تھوڑا پیچھے رہ گئے، کیونکہ یہ ایجاد تو گذشتہ پچاس برسوں میں دنیا کے ہر ملک میں کوئی نہ کوئی افلاطون کر چکا ہے۔

ہاں البتہ جو آن بان ایک مسلمان پاکستانی کی ایجاد میں ہے وہ موئے کافروں میں کہاں! دوسرا کمال چوہدری صاحب کی ایجاد کا یہ ہے کہ جب گاڑی پانی سے چلتی ہے تو اس کے ایگزاسٹ سے کاربن زدہ منحوس دھواں نہیں بلکہ صاف، اجلی اور ہلکی میٹھی آکسیجن نکلتی ہے۔ ما شاءاللہ، ہے اس کا کوئی مقابلہ پوری دنیا میں؟

ذرا سوچ کر دیکھیے ان دو مؤجدوں نے ہماری زندگی ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ ہم ایک غریب ملک والے جو پیٹرول اور گیس سے ٹینکی بھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اب ہینڈ پمپ چلا کر جتنا چاہیں ایندھن لے لیں۔

تیل کی کمیابی اور مہنگائی کے سبب بجلی بھی میسر نہیں ہوتی جس سے ہمارے دن راتوں میں اور راتیں اماوس میں بدل گئی ہیں، لیکن اب ہم اپنے رینٹل پاور پلانٹ دریائے سندھ کے پانی پر چلائیں گے اور اتنی بجلی بنائیں گے کہ ہر پاکستانی کو دو چار میگا واٹ مفت بانٹتے پھریں تو بھی ختم نہ ہو۔

پھر ماحولیات بھی ایک مسئلہ ہے، ہر طرف گندگی اور فضائی آلودگی جس میں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اب نہیں۔ اب محلے میں دو تین گاڑیاں سٹارٹ کر کے چھوڑ دی جائیں گی اور تمام رہائشی باری باری ایگزاسٹ میں ناک دے کر آکسیجن کا دن بھر کا کوٹہ مفت حاصل کیا کریں گے۔

اور کیونکہ ہر کوئی اس ایجاد سے فائدہ اٹھانا چاہے گا اس لیے ہمیں کروڑوں واٹر کٹ بنانی پڑیں گی جس سے ہر پاکستانی مرد عورت اور بچے کو روزگار بھی مہیا ہو گا، اور پورا معاشرہ خوشحال ہو جائے گا۔

اس میں فاٹا بھی شامل ہے کیونکہ قبائلیوں کو اس کاروبار میں شامل کیا جائے یا نہیں، وہ خود ہی ایک کٹ کو کھول کر اسے بنانا سیکھ لیں گے اور یوں معاشی انقلاب پاکستان کے ان دور افتادہ علاقوں میں بھی پہنچ پائے گا جہاں حکومت اور فوج بھی نہیں پہنچ سکتی۔

بدقسمتی سے اسی ملک میں کٹ کٹ کرنے والے بھی لوگ ہیں جو سوائے کیڑے نکالنے کے کوئی کام نہیں جانتے۔ یہ سب لوگ اس ڈھونگی ڈاکٹر عبدالسلام کے پیروکار ہیں جس نے ساری دنیا کو اپنی سائنس کے جال میں پھانس لیا اور گوروں سے نوبل انعام بھی نکلوا لیا لیکن پاکستانی قوم کو بیوقوف نہ بنا سکا۔

ہم نے اسے کبھی پوچھا نہ ہی اس کے نوبل انعام کو، اگر کچھ سنتے ہیں تو ہر چند سال بعد اس کی قبر کی بے حرمتی کے بارے میں۔

اس بار بھی نام کے سائنسدانوں نے ہماری فخریہ ایجادات پر فضول قسم کے سوال اٹھائے لیکن بھلا ہو کہ ہمارے پاس ایٹم بم کا باپ، ڈاکٹر قدیر خان، اور تھری کوئلے کی ماں، جناب ثمر مبارک مند موجود ہیں جنہوں نے دونوں مؤجدوں کی حمایت کی اور انہیں ٹی وی پر ان کا جائز مقام دلوایا۔

اب انتظار ہے تو بس اس بات کا کہ دنیا کے تمام گاڑیاں بنانے کے کارخانے واٹر کٹ بنانے کے آرڈر ہمیں کب دینا شروع کرتے ہیں۔

پھر ڈالر ہی ڈالر، موجاں ای موجاں۔ صاف ماحول اور آکسیجن سے لبریز ہوا اس کے علاوہ۔ اور آج سے سال دو سال بعد جب کوئی ’لوڈ شیڈنگ’ کی اصطلاح استعمال کرے گا تو لوگ ہنس کر کہیں گے ’کس زمانے کی بات کر رہے ہو بابا جی’۔

اور یہ سب اس لیے ممکن ہو سکا کہ ہم بڑی سائنس کی سطح تک پہنچنے کی بجائے سائنس کو کھینچ کر اپنی سطح تک لے آئے ہیں۔ اب ناممکن کیا رہ گیا ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

نادیہ خان Aug 14, 2012 11:31am
ہا ہا ہا... ہم واقعی ساینس کو کھینچ کر اپنی سطح پر لانے کے استاد ہیں. آغا اور چوہدری صاحب کو جن بھی قابو میں لانے چاہیے. اس سے مہنگی توانایی کیا ہوگی. شرف امریکہ ہی اپنی دفاعی ضروریات کے لیے اربوں کھربوں ڈالر پھینکنے کو تےار ہو جایے گا.
نواز پرو فیسر Aug 14, 2012 08:53pm
نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا. گر کچھ اور بھی جیتے تو یہی انتظار ہوتا.